آج کا انسان۔۔۔معاشی حیوان!

از:فدا حسین بالہامی

بسمہ تعالیٰ
زرپرستی کے چکر میں معا شرتی حیوان اپنے دوقیمتی حروفـــــ ـُُُ’’ر ‘‘ اور ’’ت‘‘ جا نے کہاں کھو بیٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ’’معاشرتی حیوان سے’’معاشی حیوان ‘‘ میں تبدیل ہوگیا۔اس تبدیلی کو دیکھ کر ڈارونؔ کی روح خوشی کے مارے پھولے نہیںسماتی کہ نظریۂ ارتقاء پر عمل پیرا ہو کر نہ معلوم اشرف المخلوقات کیا سے کیا ہونے والا ہے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب یہ اپنے جیسے اولاد آدم کے ساتھ محبت و مروت کے مختلف تعلقات مفت میں استوار کرتا تھا۔اب تو مادی فائدہ ہی تمام تعلقات کی شرطِ اول ہے یوں کہنا شاید زیادہ مناسب ہو کہ ہر تعلق داری کا واحد مقصد روپیہ ہی ہے۔اسی کی خاطر ایک معاشی حیوان دیگر معاشی حیوانوں کے پہلو بہ پہلو میدانِ معیشیت میں ـ ’’مال و زر‘‘نامی گھاس چرنے میں مشغول ہے خدانخواستہ یہ ’’نقد نارائن ‘‘ کہیں دنیا سے غائب نہ ہو جائے تو پھراِسے دنیا کی کوئی بھی شئے سنیاس لینے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ یہی تو محبوب و مطلوب شئے ہے جس کے لئے دوستی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔ قربت و اپنائت کا پاٹھ پڑھایا جاتا ہے۔ایک دوسرے کی آئو بھگت کی جاتی ہے۔پرستش کے صنم خانے میں صرف اور صرف ’’مایا‘‘نام کی دیوی کا سکہ چلتا ہے۔اس دیوی کی خوشنودی کی خاطر ہزار جتن کیئے جاتے ہیں ۔ دولت کے پجاری بلا لحاظِ مذہب و ملت صرف اور صرف ’’دیوی مایا‘‘ کے نام کی مالا جیتے ہیں ۔ ان کی پرستش و عبادت ایک لحاظ سے حد درجہ خالص ہیں ۔جس چیز کو انہوںنے اپنا معبود ٹھرایا ہے، اسکی عبادت میں شب وروز مگن ہیں۔ کیا مجال کہ فکرِ معاش کے بغیر کوئی اور بے سود خیال ان کے قلب و ذہن کو خدانخواستہ پریشان کرے۔ یا پرستشِ دولت کے سوا اورکوئی عمل ان سے سرزد ہو جائے ۔ کمانے کے چکر میں اول تو انہیں نیند آتی ہی نہیں ۔ اورگاہے بگاہے آنکھ لگ بھی جاے تو خواب میں بھی وہی ’’لین دین ‘‘ والا معاملہ دکھائی دیتا ہے ،یہ اور بات ہے کہ طبیعت کو ’’لین ہی لین ‘‘ پسند ہے ۔’’دین ‘‘ تو بہرحال ہر شخص پر گراں گزرتا ہے، چاہے خواب ہو یا حقیقت ۔اس طرح کے خواب کس قدر پر کیف ہوتے ہیں جس میں لینے والا ہاتھ خوابیدہ شخص کا ہواور دینے والا ہاتھ عالمِ ملکوت کی کسی پْر اسرار شخصیت کا۔ ایسے’’خواب ِگراں بہا‘‘ کے سامنے بیداری کریہہ معلوم ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ خواب دیکھنے والا بیداری کے بعد آہِ سرد لے کر اپنی تمنا کا اظہاریوں کرتا ہے۔کہ’’کاش عمر بھر یہی خواب ہوتا اور ہم ہوتے‘‘۔
بہرعنوان خواب و بیداری میں ’’معاشی حیوان ‘‘ طلبِ زر سے چشم پوشی نہیں کر سکتا۔ نیز اس طلب کے آگے مقام اور معیار کوئی حیثیت نہیںرکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ فقیر سے لے کر وزیر تک ایک ہی شماروقطار میں ہر کوئی جولی پھیلائے بیٹھا ہے اور طلب بھی سب کی یکساں ہے۔ اس لحاظ سے فقیر اور وزیر ہم پیشہ ہوئے۔ کیونکہ دونوں کا پیشہ ہے مانگنا۔وزیر الیکشن سے قبل لوگوں سے ووٹ مانگتا ہے اور منتخب ہونے کے بعد پیسہ ۔ آج کل کے ماڈرن فقیر اس پیشگی شرط کے ساتھ بھیک مانگتے ہیں۔ کہ اگر کوئی کچھ دینے کے موڑ میں ہے تو نقد ہی دے دے۔ عقل کا تقاضایہ ہے کہ بھوکے کی طلب پیٹ بھر کھانا ہی ہونا چاہئیے لیکن اسوقت بے چاری عقل بھی انگشت بدنداں رہتی ہے۔ جب کوئی بِھکاری اپنی احتیاج کا اظہار ان الفاظ میں کرتا کہ ’’تین دن سے بھوکا ہوں پانچ دس روپیہ دے دے بابا ‘‘۔ اسکا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوا کہ پیٹ خالی ہو تو ہو آج کے دور میں بھوکے بِھکاری کی جیب خالی نہیں ہونی چاہیئے۔ المنحتصر جدید حضرت انسان کو جس روپ میں بھی دیکھا بھالا جائے، زرپرستی میں یگانہ دکھائی دے گا۔ اسکی سر گزشت بلکہ ’’زر گزشت ‘‘ کی چند ایک جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔
اس معاشی حیوان کی پیدائش ایک نرسنگ ہوم میں ہوئی جوبظاہرزچہ گی کاتیمار خانہ ہے۔لیکن اصل میںآ باد کاری (Imigrati)کا ایک چیک پو سٹ (Check post)،جہاں انسان جیسی قیمتی در آمد پر بھاری بھر کم ٹیکس وصولا جا تا ہے۔مالک کے ساتھ ساتھ یہاں کے ڈاکٹر تو مالامال ہیں ہی۔ مال بٹورنے میں نر سیں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔بچے کی پیدائش ان کے لئے والدین سے بڑھ کر باعث مسرت ثابت ہوتی ہے۔ بھلے ہی بڑھتی آبادی پوری دنیا کے لئے باعثِ تشویش ہو۔ ان کے حق میں سراسر خوشی کی نوید ہے کیونکہ ان کی جیب آبادی میں اضافے پر منحصر ہے۔ گویا انسان نما بچوں کی صورت میں نوٹوں کی تھیلیاں ہیں جو ان نرسوں پر بے غل و غش و قتاََ فوتاََ نازل ہوتی رہتی ہیں۔ اس لحاظ سے مالھتسؔ ان کا ازلی دشمن ہوا جس نے سب سے پہلے آبادی کے اضافہ پر پابندی کا نظریہ پیش کیا تھا۔ ان کی نظر میں ضبطِ تولید ایک منحوس فعل ہے۔ جو پست ہمتی کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہیں اس بات کی سخت تشویش ہے کہ روز بہ روز مالھتسؔ کے نظریہ کو عملی فروغ مل رہا ہے۔ اور اگر اس منقی سوچ کا یوں ہی چلن رہا تو دیکھتے ہی دیکھتے قوتِ تولید انسان سے سلب ہو جائے گی۔ ان کی فکر مندی نیز موجودہ دور سے مایوسی کو مرحوم قاضیؔ صاحب نے الفاظ کے پیکر میں یوں پیش کیا ہے ؎
آپ کا انتظار کون کرے
شیواب بار بار کون کرے
ضبطِ تولید کا زمانہ ہے
پیار مردانہ وار کون کرے
گھاس کی بونفس نفس میں ہے
ڈالڈا کھاکے پیار کون کرے
الغرض ان ہی نرسوں کے جھرمٹ میں جب حضرت انسان متّولدہوئے تو دفعتاََ زچہ گی کا تیمار خانہ ’’ مبارک مبارک ‘‘ جیسی آوازوں سے گو نچ اٹھا۔ ہر چند بچے کے والد نے اپنی ’’جیب و جان ‘‘ چھڑاناچاہی۔ لیکن نرسوں نے مبارکبادی کی پورش سے اس کو حواس با ختہ کر دیا۔ نتیجتاََ جان چھوٹی نہ ہی جیب بچ پائی۔ اس پر مستزاد یہ کہ دایہ فاسد خون چوسنے والی جو نکوں کی طرح گلے پڑ گئیں۔حضرت انسان کا والد عجیب محمضے کا شکار ہوا کہ اس غم آمیز مسرت کا اظہار کیسے کرے۔ خوشی کے بناوٹی اظہار کی آڑ میں رنجید گی کے گہرے آتار چھپائے نہیں چھپتے۔ صاحبِ اولاد ہونا اس لحاظ سے راحت رساں تھا کہ اسکی کمائی ہوئی دولت و ثروت کا وارث اُسے ہاتھ آگیا ۔ مگر دوسری جانب نرسوں اور دایہ کے ہا تھوں لٹنے کا حادثہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا تھا۔ کہ آخرانمول انسان کے یہ مول کب سے چڑھ گئے ہیں؟ غرض اسی چھینا جھپٹی میں اس بچے نے جو آ نکھ کھولی۔ تو سب سے پہلے مال و زر کے حصول کی خاطر کشمکش دیکھی اس سے پہلے کوئی اور آواز اسکے قویٰٗ سماعت کو بیدار کرتی ، پینسوں کی جھنکار اور نرسوں کی للکارو پکار نے اسے چونکا دیا۔
چندروز تک نام کے انتخاب پر اس نومولود کے گھر بحثا بحثی رہی۔بالآخر اس امید کے ساتھ ’’برکت ‘‘ نام تجویز ہوا کہ خدا کرے یہ بچہ اسمِ بامسمیٰ ثابت ہو۔ باالفاظ دیگر دولت میں اضافہ کا باعث بنے۔ اور خوب پینسہ کمائے۔ بلکہ اس کا وجود چلتا پھرتا بینک(Bank)بن جائے۔ اسی خیال کے تحت بچے کی پرورش شروع ہوئی۔ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اسکے پالنے پوسنے میں ایک رقم منحتص ہوئی۔ تاکہ بڑا ہو کے اس پر خرچ کی گئی رقم کے ساتھ ساتھ سوگنُا منافع واپس لا کے دے دے۔
اب جو رفتہ رفتہ بچے کی شاخت نے کام کرنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ماں باپ اور دیگر اقربا کو پہچاننے سے قبل ہی اس نے ’’ نقدنارائن ‘‘ کی معرفت حاصل کر لی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس امرسے ہوا کہ کھبی کبھار جو روپیہ پیسیہ کی بات چلتی، بچہ چونک اٹھتا ۔ ایک طرف اگر والدین ہوتے اور دوسری جانب پیسہ تو یہ پیسے کی طرف ہی لپکتا ۔ یہاں تک کہ برکت کی آنکھوں کو کرارے نوٹوں کے سوا کوئی اور چیز خوش نمانہیں لگتی۔شاید اسی سبب سے جب کھبی نوٹ نظروں کے سامنے آجاتے برکت ؔ کی نگاہ کوگویا زنجیریں پڑجاتیں۔ قوتِ شامعہ بوئے گل کے بجائے روپیوں کی خوشبوں سے تشّفی پاتی۔ سب سے زیادہ برکت کے چھوٹے موٹے کانوں کو سِکوں کی جھنکار دلکش معلوم ہوتی۔ اس جھنکار سے برکت کی روح رقص کرتی تھی اور دل جھوم اٹھتا تھا۔ اور لذیذ غذا کے بجائے زر نقد دیکھ کرمنھ میں پانی آجاتا تھا ۔
عزیزواقارب میں امتیاز کرنے کا معیار یہی طے پایا جو کوئی روپیہ ہاتھ میں تھمادے وہ بلا ہے۔ اور جس نے کچھ دینے سے ہاتھ روک لیئے وہ بُرا قرار پایا۔ کوئی اگر جیب کھولے بغیر ہی پیارجتانے لگتا تو برکت اُسے من ہی من بہروپیوں کے زمرے میں شمار کرنے لگتا تھا۔ کیونکہ اس کے نزدیک بخشش سے عاری محبت بے وقعت تھی۔
ہوش سنبھالتے ہی برکت نامی اس جدید انسان کو ایک جزوقتی دینی درسگاہ بھیج دیا گیا۔
ایک روز مولوی صاحب نے بچوں کو جنت کی خیالی سیر کروانے کی ٹھانی۔لطیف الفاظ اور دلکش آواز کے ذریعے باغِ بہشت کے چند ایک مناظر کا نقشہ مولوی صاحب نے یوں کھینچا۔کہ تمام بچے سوائے برکت کے تصّور کے پر لگا کر جنت دیکھنے چل نکلے۔ حور وغلمان کا تعارف ہوا۔ آرام و آسیائش کا تذکرہ ہوا۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہائی گئیں۔ اور تو اور مولوی صاحب نے جنت کے تئیں حقِ تصّرف کی یقین دہانی بھی کروائی۔ برکت ابھی اس سن کو نہیں پہنچاتھا کہ حوروں کا خال وخط اسکی چھوٹی چھوٹی نگاہوں میں سما جا تا اور اس کے دل میں ہلچل مچا دیتا۔ تا ہم اس قدر بھی کم سن نہیں تھا۔ کہ میٹھے میٹھے پھلوں اور شیرو شہد کا ذائقہ اس کے فہم سے ماورا ہوتا۔ اس دوران ایک بچے نے مولوی صاحب کے ہاتھ میں چھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معصومانہ لہجے میں کہا۔ کہ ’’کیا وہاں بھی درسگاہوں میں مدرس اسی طرح پڑھاتے ہیں؟‘‘ مولوی صاحب نے اتنا کہہ کر بچے کو ٹالا کہ ’’ وہاں پڑھنے پڑھانے کی کیا ضرورت!‘‘ اس پر سوال کنندہ بچے کے ساتھ ساتھ تمام بچوں نے راحت کی سانس لی ۔ اور مولوی صاحب پھر سے خوش گفتاری میں محو ہو گئے۔ پوری تقریر کے دوران مولوی برکتؔ کو تاڑتے رہے۔اور اس کی انگڑایوں سے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ اس سحرا نگیر،اور سریع التا ثیر تقریر کا اثراس پر نہیں ہو رہا ہے۔لہذاا س سے اسکی بے چینی کی وجہ دریافت کی ۔برکت نے جواباًعرض کیا۔’’مولوی صاحب یقینا جنت میں بے شمار نعمات کی فراوانی ہوگی لیکن شاید جنت بھی سب سے بڑی نعمت یعنی زرـــ نقد سے تہی دامن ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہاں بھی جموں کشمیر بینک کی ایک عدد شاخ ( BRANCH) قائم ہو تی‘‘۔یہ سن کر مولوی صاحب چونک کر خاموش ہو گییٔ۔ اور کسی گہری سوچ میں ڈوب گییٔ۔
دن گزرتے گییٔ برکت نے لڑ کپن میں قدم رکھا۔اس کے والد نے اسے سرما یہ کے بل پر ایک مہنگے پرائیویٹ اسکول میں ٹھیک اسی اطمنان سے داخلہ کروایا۔ جس اطمنان سے وہ وقتاََ فوقتاََ اپنی جمع پو نجی میں سے کچھ رقم بینک کے(Fixed Deposit) کھاتے میں جمع کرواتے ہیں۔ تاکہ ایک معینہ مدت کے بعد دوگنی رقم واپس لے جائے۔اسکول بھی ایسا غضب کا تھا کہ جہاں مختلف حیلے بہانوں سے طلباء سے بڑی بڑی رقمیں اینٹھی جاتی تھیں۔ایک تعلیم کے عوض فیس کے سینکڑوں مد وصولے جاتے تھے۔یہاں تک کہ خدا کی ہوا سے سانس لینے تک کا معاوضہ وصولا جاتا تھا۔ایک جانب یہ کہتے یہاںکے استاد تھکتے نہ تھے کہ’’علم بڑی دولت ہے‘‘لیکن دوسری جانب آئے روز روپیوں کی ڈیمانڑ (Demand) کے ذریعے یہ سوچ عملی طور طالبِ علموں کے اذہان میں بٹھا ئی جاتی تھی کہ مادی دولت علم سے بڑھ کر ہے۔اور علم ،دولت حاصل کرنے کا آسان ذریعہ ہے ۔توقع کے عین مطابق جب بچوں سے پوچھا جا تا کہ دو اوردو کتنے ہوئے ۔ محض چار کے بجائے چار روپیہ کہتے ۔ یہ اسکول بچوں کو اچھے انسان بنانے سے رہ گیا لیکن بحمدُاﷲاچھی خاصی (Counting machines) میں انہیںتبدیل کر گیا۔ بظاہر گوشت پوست کے انسان اور بیاطن ڈیجٹل من(Digital Men)۔جو صرف اور صرف ہندسوں کی زبان سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ رشوت خور سرکاری افسروں کی ہنر مندی دیکھ کر دھنگ رہ جاتے ہیں ۔ کہ رشوت خوری کیلئے کیوں کر وہ نِت نیئے حیلے بہانے تراشتے ہیں؟۔ در اصل ان حیرت زدہ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ اسی قماش کے تعلیمی ادارے ان کی اولین تربیت گاہ کے طور اپنی خدمت انجام دیتے ہیں۔ اس قسم کے تعلیمی پسِ منظر میں برکت کی مادی ذہنیت ماشااﷲ خوب پروان چڑھی۔ ایک مرتبہ ایک ڈیجٹل ماشٹر نے اپنے شاگرد ِرشید برکت ؔسے بے تکا سوال کیا۔ مگر اُس نے کچھ اس انداز سے جواب دیا کہ با با ئے کمیونزم کی روح(جہاں کہیں بھی ہو) سن کر جھوم اٹھی ہوگی ، سوال ہوا۔ ’’کیا ہند کے باپو یعنی گاندھی جی کو جانتے ہو ؟ اور کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہندوستان کے باسیوں کی نگاہ میں ان کی کیا قدرو قیمت ہے؟‘‘ تو فی البدیع جواب ملا۔’’جب سے گاندھی جی کے نصف بدن کی نمائش پانچ سو کے نوٹوں کے ذریعے ہونے لگی۔ تب سے خوب جانتا بھی ہوں،مانتا بھی اور پہچانتا بھی ہوں۔اوراسی حوالے سے اُن کو عزیز بھی رکھتاہوں۔ رہی بات اہل ہندکی ۔ان کی نظر میں باپو کے سر کی قیمت ابھی ہزار روپیہ سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ سب سے بڑا نوٹ جس پر باپو کی تصویر چھپتی ہے ایک ہزار ہی کا ہے‘‘۔برکتؔ کے اس جواب سے یہ معمہ بھی حل ہوا کہ آخر کیوں قومیں اپنے قومی ہیرو کی تصاویر سے سکئہ رائج الوقت کو زینت بخشتی ہیں۔ شاید عوام و خواص کو اپنے محسنوں اور لیڈروں سے روشناس کرانے کا اِسے بہتر طریقہ کار ممکن نہیں ہے۔ جو لیڈر تاریخ کے گرد آلود اور سادہ اور راق میں پوشیدہ رہتے ہیں۔ وہ لوگوں کے ذہنوںمیں تادیر جگہ نہیں بناپاتے ہیں۔ برعکس اسکے زرِ نقدپر جلوہ افروز ہونے کے بعد نہ صرف خاص و عام کے منظورِ نظربن جاتے ہیں بلکہ وہ انہیں ہمیشہ سینوں سے لگائے رکھتے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کے حصول کا وقت آیا تو برکت کے سامنے مختلف علمی شعبے تھے جن میں اُسے کسی ایک شعبہ کو چننا تھا۔ اس سے قبل کہ کسی خاص شعبے کو اختیار کیا جاتا یہ دیکھنا ضروری تھا کہ کس علمی شعبہ کی دسترس (Scope)کہاں تک ہے۔ اور اس Scopeکو ناپنے کا وہی مادی میٹر کام آیا۔صاف الفاظ میں کہاجا سکتا ہے کہ سکوپ(Scope)کا اصل مطلب یہ ہے کہ کون ساعلمی شعبہ دولت جمع کرنے میں کس قدر معاون ثابت ہو سکتا ہے۔چنانچہ اسی سوچ کے مطابق ایک نفع بخش شعبہ کا انتخاب کیا گیا۔اختتام تعلیم کے بعد توقع کے عین مطابق بر کت نے ایک ایسا پیشہ اختیار کہ جس میںچاروں اور ہُن برستا تھا ۔خوب کمائی ہونے لگی۔اور دیکھتے ہی دیکھتے نقد نارائن کی فراوانی ہوئی برکت کافی قلیل عرصے میں ہی خود کو اسم یا مسمیٰ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے۔سرمایہ داروں کی فہرست میں ایک اور نام کا اندراج ہوا۔لیکن شومئی قسمت ایک بار کسی نا معلوم ٹھگ نے ایک دولاکھ کا چونا لگا دیا۔ جس سے برکت کی حرکت ِ قلب بند ہوگی۔اسے ہسپتال پہنچایا گیا ایک ڈاکٹرنے جب تیماداروں سے وجہ دریافت کی تو انہوں نے دولاکھ کے نقصان کا رونا رویا۔خوش طبع ڈاکٹرنے ازراہِ مزاح ان سے کہا۔’’تو پھر اسے یہاں ہسپتال میں کیوں لے آئے ہو۔اسے تو کسی نزدیکی بینک میں لے جا کر ڈھیر سارے روپیوں کی زیارت کروانی چاہیئے اس یقین دہانی کے ساتھ کہ دولت کے اس انبارکا ایک اکلوتا مالک یہی ہے‘‘۔ مگرمزاح کو ہمدردانہ مشورہ جان کر اسکو فوراً ہسپتال سے نزدیکی بینک پہنچایا گیا ۔ منیجر کو پورے کا پورا ماجرا سنایا گیاپہلے تو اس پر راضی نہ ہوے کہ اس نیم مردہ شخص کی شاید آخری خواہش پوری ہو جائے۔مگر یہ سوچ کر بالآخر وہ رضا مند ہوئے۔ کہ ا سکا کیا جائے گا اگر جھوٹی تسلی سے کوئی راہِ عدم کا راہی پھر سے وجود کی تنگ گلیوں میں گا مزن ہو۔ آخر کار تیمار دار اُسے کیش کاونٹر پرلے گئے نقد نوٹوں کی نما ئش ہوئی۔ ہر چند برکت کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ وہ ان تمام روپیوں کا بلا شرکت غیرے مالک ہے مگر کیش (cash ) اور اُس کے درمیان حائل آ ہنی جالی نے اُسکو
اپنے حدودِ تصر ف صاف صاف دکھائے۔ اور یہ طفل تسلیاںاس کے دل و دماغ کو فریب دینے میں کارگر ثابت نہ ہو سکیں ۔ گو اس پر احوالِ
واقعی کا انکشاف ہوا تھا پھر بھی وہ ٹکٹکی باندھے اسی کیش کی جانب دیکھ رہا تھا گویا غالبؔ کی زبان میں بینک کے کیشر سے مخاطب ہو ؎
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں دم تو ہے
رہنے دو ابھی ساغرو مینا میرے آگے
ایسا لگتا تھا کہ برکت کی آنکھیں ابھی تک سب سے زیادہ پسندیدہ شئے کو تکتی تھیں ۔ جس سے تیمارداروں کو دھوکہ ہوا کہ شاید جان باقی ہے۔ مگر نہ جانے چوری چھپے ’’روحِ مادیت ‘‘ کب ’’قفسِ معیشت‘‘سے پرواز کر گئی تھی ۔یہ اور بات ہے کہ دیدارِ محبوب میں محواس بندئہ زر کو جان کنی کی سختی محسوس نہ ہوئی۔ اور یوں پیسہ کمانے کا ایک اور کھاتہ بند ہوگیا۔
مرحوم کے پُر ازمال انتقال کے تعلق سے جو خبر اخبار ’’الاقتصاد ‘‘ میں چھپی۔ اسکے مطابق مرحوم سیم وزر کے رسیاتھے۔ فریب کاری، جعل سازی اور رشوت خوری میںمرحوم کا کوئی ثانی نہ تھا۔ کمائی میں ہمہ وقت پابند تھے۔ مرحوم اپنے پیچھے حرام کی کمائی کی صورت میں اپنے وارثوں کے درمیان ایک مستقل تنازعہ چھوڑ گیئے۔ سرمایہ داری کی دنیا میں جو خِلا پیدا ہوئی۔ اسکی بھر پائی ناممکن ہے۔ مہنگائی کے پیشِ نظر اور مرحوم کی وصیت کے مطابق کوئی چہارم نہیں ہوگا۔ البتہ جہاں تک ہو سکے ان کے وارث دو تین گھنٹے بناوٹی سوگ کا اھتمام کریں گے ؎
شہیدِ معیشت نہ کافر نہ غازی