بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا،برصغیر کی علمی شخصیت مولانا ڈاکٹر کلب صادق پرنم آنکھوں کے ساتھ سپردِ خاک

نئی دہلی/ولایت ٹائمز نیوز سرویس/۲۵ نومبر/معروف شیعہ عالم دین اور شیعہ-سنی اتحاد کے علمبردار مولانا کلب صادق کو ہزاروں سوگواروں نے نم آنکھوں کے ساتھ آخری وداعی دے دی۔ مولانا کلب صادق کو غفران مآب میں سپرد خاک کیا گیا اور اس سے قبل حسین آباد واقع یونٹی کالج میں اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے ہندوستان میں نمائندہ آیت اللہ حاج مہدی مہدوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ نمائندہ ولی فقیہ ہند نے ڈاکٹر کلب جواب کے انتقال کو پوری ملت خصوصا لکھنوں کے لئے بہت بڑا نقصان قرار دیا اور کہا کہ مرحوم ہمیشہ امام خمینی ؒ کے تفکرات کی ترویج اور مقام معظم رہبری کے حامی رہے۔ اس نماز جنازہ میں اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر دنیش شرما سمیت بڑی تعداد میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیتیں شریک ہوئیں۔ دوسری نماز جنازہ گھنٹہ گھر پر سنی طبقہ کے ذریعہ پڑھائی گئی اور بتایا جاتا ہے کہ لکھنؤ کی تاریخ میں ایسا دوسری مرتبہ ہوا ہے جب ایک جنازے کی دو نمازیں پڑھی گئیں۔

مولانا کلب صادق کی نماز جنازہ آج صبح ان کے قائم کردہ یونٹی کالج میں ہزاروں افراد نے پڑھی جس کو رہبر انقلاب ایرانی سید علی خامنہ کے ہندوستان میں خصوصی نمائندے آیت اللہ مہدی مہدوی پور نے پڑھائی۔اس کے بعد ہزاروں سوگواروں کے ساتھ جنازہ امام باڑہ غفرانماب کی طرف روانہ ہوا،جہاں بعد میں مولانا کلب صادق کی تدفین عمل میں آئی۔ تدفین سے پہلے کی مجلس بھی آیتہ اللہ مہدی مہدوی پور نے خطاب کی۔

مولانا کلب صادق کی میت میں ہزاروں افراد، جن کا تعلق ہر طبقہ سے تھا، شریک ہوئے اور ان کے حق میں نعرے بلند کیے جا رہے تھے۔ یونٹی کالج کی نماز میت کے بعد ایک نماز جنازہ گھنٹہ گھر کے پاس اہل سنت حضرات نے ادا کی۔ یہ دوسرا موقع ہے جب کسی شیعہ عالم دین کی نمازِ جنازہ شیعہ اور سنی حضرات نے پڑھی ہو۔ جنازے میں شریک ہونے والوں میں ہزاروں خواتین بھی تھیں جو زار و قطار گریہ کر رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں ’’اب ہماری سرپرستی کون کرے گا؟‘‘ ہزاروں سوگواروں میں ہر مسلک اور دین و مذہب سے جڑے افراد شریک تھے جن میں سے متعدد سرکاری ذمہ دار بھی تھے۔لکھنؤ کی میئر سنیکتا بھاٹیہ بھی اس میں شریک ہوئیں۔

منگل کی شب مولانا کلب صادق کے انتقال کی خبر پھیلنے کے بعد سے ہی مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیتوں کے ذریعہ تعزیتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران پی ایم نریندر مودی اور کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ شیعہ عالم دین مولانا کلب صادق کے انتقال پر اظہارِ افسوس کیا۔ پی ایم مودی نے اپنے آفیشیل ٹوئٹر ہینڈل سے جو ٹوئٹ کیا ہے اس میں لکھا ہے کہ ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب چیئرمین رہے مولانا کلب صادق کے انتقال سے انتہائی غم ہوا۔ انھوں نے سماجی خیرسگالی اور بھائی چارے کے لیے قابل ذکر کوششیں کیں۔ ان کے اہل خانہ اور چاہنے والوں کے تئیں میری ہمدردی۔‘‘

کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے مولانا کلب صادق کے انتقال پر بذریعہ ٹوئٹر تعزیتی پیغام جاری کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’ڈاکٹر مولانا کلب صادق صاحب کے انتقال کی خبر غمناک ہے۔ ایک ہمدرد انسان ہونے کے ساتھ وہ ایک دانشمند سماجی مصلح بھی تھے۔ انھوں نے مختلف طبقات کے درمیان بھائی چارے کو مضبوط کرنے میں اہم کردار نبھایا۔‘‘ ساتھ ہی راہل گاندھی نے یہ بھی لکھا کہ ’’ان کے اہل خانہ، دوستوں اور چاہنے والوں کے تئیں میری ہمدردی ہے۔‘‘

امیر جماعت اسلامی ہند نے بھی مولانا کلب صادق کے انتقال پر اپنی تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’مولانا کلب صادق اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔ انھوں نے شیعہ سنّی خلیج کو کم کرنے اور دوریاں مٹانے میں اہم کردار ادا کیا اور کامیابی حاصل کی۔ یہی نہیں بلکہ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بھی برابر کوشاں رہتے تھے۔ ان کی وفات ملت اسلامیہ ہند کا ناقابلِ تلافی خسارہ ہے۔‘‘ ان خیالات کا اظہار جناب سید سعادت اللہ حسینی نے اپنے ایک تعزیتی پیغام میں کیا۔

امیر جماعت نے فرمایا کہ کلب صادق مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانے کے لیے برابر کوشاں رہتے تھے۔ انھوں نے ملک کے مختلف حصوں میں تعلیمی، طبی اور رفاہی ادارے قائم کیے۔ لکھنؤ کا ایرا میڈیکل کالج انہی کی یادگار ہے۔ انھوں نے ’توحید المسلمین‘ ٹرسٹ قائم کیا، جس کے ذریعے بے شمار غریب اور مستحق نوجوانوں کی امداد کی اور ان کے تعلیمی مصارف برداشت کیے۔

واضح رہے کہ طویل علالت کے بعد مولانا کلب صادق کا منگل کی شب تقریباً 10 بجے انتقال ہو گیا تھا۔ وہ کئی طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے تھے گزشتہ کئی دنوں سے اسپتال میں زیر علاج تھے۔ مولانا کلب صادق کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے سبطین نوری کا ایک ویڈیو منظر عام پر آیا تھا جس میں وہ نم آنکھوں کے ساتھ یہ کہہ رہے تھے کہ ’’ ’’قوم یتیم ہو گئی، قوم یتیم ہو گئی، قوم کا سرپرست چلا گیا۔ آپ کے قوم کے حکیم امت اللہ کی بارگاہ میں چلے گئے۔ آپ کوئی آپ سے نہیں کہے گا کہ تعلیم حاصل کرو، کوئی آپ کے بچے کو پڑھوائے گا نہیں۔ ہندو- مسلم اتحاد، شیعہ-سنی اتحاد کی بات کرنے والا اب کوئی نہیں۔‘