مزید برآن اینکہ قوم کی درست تقدیر سازی کے لئے قوم کے پاس درست فکر ، عزم راسخ ،بلند اہداف کو پانے کا جذبہ اور اپنے رہبر کے تئیں وفاداری کا جوہر ناب پایا جاتا ہو اوراس کے ساتھ ساتھ ایک مخلص،بصیر،شجاع ،عالم وعارف اور خودی سے لبریزرہبر اس کے پاس موجود ہو۔
خادم ملت و دین: عمران المحمدی
ہر سخن سے پہلے ہم اس بات کو واضح کرنا چاہیں گے کہ اقوام میں انقلاب کیوں اورکب آتا ہے؟ انسان ایک ذی شعور ،حساس اور متحرک بالارادہ مخلوق ہے۔جیسے زندگی جینے کے لے کچھ بنیادی ضرورتوں کے پورا ہونے کا انتظار رہتا ہے۔اگراسکی وہ ضرورتیں پوری ہوجائیں تو وہ مطمئن ہوجاتا ہےجس کے نتیجہ میں اسے ایک پر سکو ن زند میسر ہوتی ہے۔لیکن اگر اسکی وہ ضرورتیں پوری نہ ہوں تو اس کا نتیجہ برعکس نکل آتا ہے۔انسان کی زندگی میں اطمینان کی جگہ اضطراب آتا ہے اور سکون کی جگہ بے آرامی لے لیتی ہے۔لہذا ضروری ہے اور یہ ضرورت حتمی اور یقینی ہے کہ انسان اپنی زندگی میں خوش رہے،اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرے تاکہ اس کی صلاحیتیں نکھرے اور اس کی پاک آرزوئیں پوری ہوجائیں۔جب انسان مضطرب ہوتا ہے اور جب اس کی پیشرفت رک جاتی ہے تو یہ ظاہری اور نفسیاتی طور پر ان عوامل کے ساتھ جنگ پر آمادہ ہوجاتا ہے جو اسکے اضطراب کا باعث اور اسکی عدم پیشرفت کا سبب بنے ہوتے ہیں۔وہ ہر لحظہ ان عوامل کے ساتھ حالت جنگ میں ہوتا ہے کہ جس کاسب سے چھوٹادرجہ ان عوامل کے ساتھ دلی نفرت ہے۔یہ موڑ اور یہ مقام اقوام کی زندگی میں بہت ہی نازک ہوتا ہے۔اگر اس موڑ پر توقف نے زیادہ طول پکڑا تو وہ قوم آہستہ آہستہ نابودی اور نیستی کی طرف چلی جاتی ہے اور اس سے متعلق مسائل پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے جاتے ہیں پھر ایسی قوم انسانیت کو پھاڑ کھانے والے درندوں کا نوالا بن جاتی ہے۔خود باختگی،حواس باختگی اور اقدار کا زوال اس کاخاصہ بن جاتاہے۔آخر کار اس قوم کے افراد اپنی بقاء کے لے اپنے قومی تشخص اور پہچان کو چھوڈ دیتے ہیں اور دوسری قوموں میں پناہ لینا شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح سے اس قوم کی شناخت اوراس کی میراث ختم ہوجاتی ہے۔لیکن اگر اس نازک مرحلہ نے طول نہیں پکڑا تو یہ قوم دو میں سے ایک راستہ کی طرف چل پڑتی ہے۔پہلا راستہ یہ ہے کہ وہ قوم اپنی پرانی تہذیب اور وراثت کو پیشرفتہ صورت میں ڈھال لے اور پھر اسے اپنا لے ۔جبکہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی تہذیب اور وراثت کو متروک قرار دے اور اس کی جگہ دوسری پیشرفتہ اقوام کی تہذیب کواپنا لے۔ اس صورت میں یہ قوم وہ قوم نہیں رہتی جو کہ یہ پہلے تھی کیونکہ ایسا کرنے سے اس کا تشخص ختم ہوجاتا ہے۔ پھر ایسی قوم اس قوم کی خارجی شاخ تصور کر لی جاتی ہے کہ جس کی تہذیب وہ اپنا لیتی ہے۔ لیکن یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا کہ قوم جودو میں سے ایک راستہ کا انتخاب کرتی ہے وہ ایساکیسے کرتی ہے؟اس کاجواب یہ ہے کہ اس مقام پر قوموں کو راہنمائوں کی اپنی تاریخ میں سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔اگر رہبر و راہنمااس قوم کی مٹی سے ہو اور اسی قوم میں سے ہو، جیسے سید روح اللہ موسوی خمینی تو دو نوں راستوںمیں سے پہلا راستہ اپنایا جاتا ہے۔لیکن اگر رہبرہو تو اسی قوم کی مٹی کا ،لیکن ان میں سے نہ ہو،جیسے رضا شاہ پہلوی تو دوسرا راستہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔اور یہ دوسرا راستہ آگے چل کرپھر ایک دوسرے انقلاب کی وجہ بن جاتا ہے ۔کیوں؟اب وہ آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں۔
پہلا راستہ قوموں کو ترقی اور سربلندی کی طرف لے جاتا ہے۔لیکن اس راستہ کے بھی کچھ اپنے مسائل ہیں :چونکہ دونوں راستوں کے انتخاب میں رہبر کا نمایاں کردار ہوتا ہے اور رہبر کی شخصیت،اس کی سوچ ان راہوں میںروح کی مانند دخیل ہوتی ہے لہذا رہبر کا ایک ایسے منبع فکری کے ساتھ وابستہ ہونا لازمی ہے جو علم حقیقی،جرا ت واقعی،شجاعت عینی،درایت صحیح وسیاست معنوی کا مخزن ہو۔جس منبع سے یہ چیزیں جتنی زیادہ پھوٹتی ہوںگی اس منبع سے وابستہ رہبر کے انتخاب کئے ہوئے راستہ کی سچائی اور خوبی میںاتنا ہی زیادہ اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔اس مقام پر قوم کے ذی شعور افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تلاش اور کوشش سے دنیا کی تمام فکروں کو کھنگا لے ، ان میں غوروفکر کرے اور پھر یقین کے مرحلہ تک پہنچیں کہ اس کارہبر کیسا ہونا چاہئے اور کسے ہونا چاہئے۔آیا رہبری فکر کا منبع کمیونزم،سوشلزم،کیپٹلزم،لیبرلزم،انڈوجولزم ہویا پھر اسلام ہو۔اتنی بیداری خود فرد میں ہونی چاہیے کہ وہ صحیح اور غلط میں تمیز کر سکے،اور فرقان فطرت کو کام میں لاکر اپنی تقدیر کا درست فیصلہ کرلے۔
مزید برآن اینکہ قوم کی درست تقدیر سازی کے لئے قوم کے پاس درست فکر ، عزم راسخ ،بلند اہداف کو پانے کا جذبہ اور اپنے رہبر کے تئیں وفاداری کا جوہر ناب پایا جاتا ہو اوراس کے ساتھ ساتھ ایک مخلص،بصیر،شجاع ،عالم وعارف اور خودی سے لبریزرہبر اس کے پاس موجود ہو۔اگر ایسا ہوجائے تو پھر نہ کشمیر ی قوم جیسی قوم درماندہ ہوگی اور نہ ہی علی ؑجیسا امام نخیلہ کی دھوپ میں بیٹھ کراپنے یاوروں کی راہ تکتا رہے گااس حال میں کہ کوئی نہ آیا!
رحم اللہ من تبع الہدی