ریاض/تیل کی عالمی قیمتوں میں تاریخی گراوٹ کے سبب، سعودی حکومت کا سب سے محکم ستون اس وقت متزلزل ہوچکا ہے۔ تیل کے علاوہ، سعودی عرب کے سیاسی نظام کے دو دیگر ستون بھی ہیں، جن میں ایک خود آل سعود کا وسیع و عریض خاندان اور دوسرے مذہبی مراکز ۔ اور گذشتہ ان چند برسوں میں یہ دونوں ستون بھی لرزہ بر اندام نظر آتے ہیں۔
“ولایت ٹائمز “نے “ولایت ڈاٹ کام “سے نقل کیا ہےکہ رپورٹ کے مطابق ابھی محمد بن سلمان سعودی عرب کے تخت پر نہیں بیٹھے ہیں لیکن سیاسی گلیاروں سے ہونے والے تجزیات میں یہ موضوع بڑی شدت و حدت کے ساتھ سنائی دے رہا ہے کہ کیا تیل کی عالمی منڈی میں آئی قیمتوں میں گراوٹ و تنزلی سعودی عرب کے تخت کو بھی لے ڈوبے گی یا نہیں؟ چونکہ یہ کسی اور کی بات نہیں بلکہ ایک ایسے ملک کی بات ہے جس کی پوری معیشت اور اقتصاد کچے تیل کی پیداوار پر موقوف ہے چنانچہ کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق چونکہ تیل اس وقت اپنی قیمت کھو چکا ہے لہذا سعودی عرب میں آل سعود کی خاندانی آمریت کا یہ آخری دور ہوسکتا ہے۔
البتہ سعودی عرب میں آل سعود کی حکومت کے خاتمہ کو لیکر قیاس آرئیاں اور بحث و گفتگو کوئی نئی چیز نہیں ہے چونکہ ابھی اس سے پہلے کہ دنیا پر کرونا وائرس کا قہر ٹوٹے اس موضوع پر کئی کتابیں تک لکھی جاچکی ہیں۔ سن ۲۰۱۳ میں کارن الیوٹ ہاوس ۔امریکی نامہ نگار ۔ نے ایک کتاب سعودی عرب کے سلسلہ میں لکھی کہ جس میں انہوں نے خود سعودی کے اندر سیاسی طوفان کی پیشین گوئی کی تھی۔ اور اسی سال پروفیسر کریسٹوفر ڈیویڈسن، نے بھی ایک کتاب تحریر کی تھی جس کا عنوان تھا:’’ شیخوں کے بعد، خلیج فارس کی سلطنتوں کا ٹوٹنا‘‘۔ اور واضح طور پر ان سلطنتوں اور بادشاہتوں کے ٹوٹنے کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور اس کے علاوہ کئی دیگر پورپین ادارے، تنظیمات اور چینلز تھوڑے تھوڑے وقفہ پر اس موضوع کو اٹھاتے رہتے ہیں اور اس کے متعلق تجزیے ، تبصرے اور قیاس آرئیاں ہوتی رہتی ہیں۔
لیکن جب سے تیل کی عالمی قیمتوں میں موجودہ گراوٹ دیکھنے کو ملی اس وقت سے وسیع پیمانے پر سعودی عرب کے سیاسی پس منظر کو لیکر قیاس آرائیاں اور تبصرے مزید تیز ہوگئے ہیں اور ان میں سے اکثر تجزیے اور تحلیل اس فرض پر استوار ہے کہ سعودی عرب کا اقتصاد تیل کی عالمی قیمتوں میں گراوٹ کے موجودہ گراف کو زیادہ عرصہ تک تحمل نہیں کرسکتا اور جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس ملک کو اپنے بجٹ میں بہت بڑی کٹوتی کرنا پڑے گی۔
سعودی حکومت کے تین محکم ستون
اکثر سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ تیل کے بغیر سعودی حکومت کا مستقبل بہت تاریک ہے چنانچہ میڈل ایسٹ آئی کے ایڈیٹر ڈیوڈ ہرسٹ بھی ان مبصرین میں سے ہیں کہ جنہوں نے ابھی کچھ دن پہلے اسی ویب سائیٹ پر ایک آرٹیکل میں یہ تحریر کیا تھا کہ اگر تیل منڈی میں تیل کی موجودہ قیمتیں اسی طرح جاری رہتی ہیں تو بہت جلد سعودی عرب کا شمار قرضدار ملکوں کی فہرست میں ہوجائے گا۔ اور ہرسٹ کی تحریر کے مطابق سعودی عرب کی معیشت پر کافی عرصہ سے بحران کے بادل منڈلاتے رہے ہیں چنانچہ جب بادشاہ سلمان ۲۳ جنوری سن ۲۰۱۵ کو تخت حکومت پر بیٹھے تو اس وقت سعودی عرب کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر (Foreign exchange reserves) ۷۳۲ ارب ڈالر تھے لیکن سعودی مرکزی بینک کے جاری کردہ بیان کے مطابق دسمبر ۲۰۱۹ میں زرمبادلہ کے ذخائر ۴۹۹ ارب ڈالر رہ گئے تھے اس کا مطلب صاف ہے کہ سعودی عرب نے۴ برس کی اس مدت میں ۲۳۳ ارب ڈالر کے ذخیرہ کو خرچ کردیا ہے اور اسی طرح عالمی بینک کے جاری کردہ اعداد و ارقام کے مطابق سعودی عرب کی جی ڈی پی سن ۲۰۱۲ میں ۲۵۲۴۳ ڈالر تھی جو سن ۲۰۱۸ میں ۲۳۳۳۸ پر پہونچ چکی تھی۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی پیشین گوئی کی ہے کہ سعودی عرب کا خالص قرضہ رواں سال میں کل جی ڈی پی کا ۱۹ فیصد اور آگلے برس تک کل جی ڈی پی کا ۲۴ فیصد تک ہونے والا ہے ۔جبکہ ابھی کرونا وائرس کے آثار سے دنیا کا پیچھا چھٹتا نظر نہیں آرہا ہے جس کے سبب ممکن ہے تیل قیمتوں میں ۲۰۲۲ تک اسی طرح گراوٹ درج ہوتی رہے تو اس لحاظ سے ۲۰۲۲ میں سعودی عرب کا قرض اس کی کل جی ڈی پی کے ۵۰ فیصد تک پہونچ سکتا ہے۔
گذشتہ ایک دو برس میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے تیل پر ملک کی اقتصادی وابستگی کو کم کرنے کے لئے متعدد پروجیکٹس تیار کئے تھے جن میں سے ایک وژن ۲۰۳۰ ہے ۔ لیکن اس پروجیکٹ کے بہت سے مراحل کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا اور جن کا آغاز ہوچکا تھا تو ان میں سعودی اقتصاد دانوں کو کوئی خاطر خواہ کامیابی ہاتھ نہیں آئی ہے چنانچہ سعودی کے ولیعہد نے اس پروجیکٹ میں اصلاح اور ملکی اقتصاد کو سرے سے محکم کرنے کے لئے دو اقدام کرنے کی پلاننگ کی تھی:
پہلا پلان: سعودی ولیعہد کا پہلا پلان یہ تھا کہ سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو کی ۵ فیصد شئرز بیرونی ممالک کی کمپنیوں کو فروخت کردیئے جائیں اور دوسرا پلان یہ ہے کہ عوامی سرمایہ کاری فنڈ کے ذریعہ ملک کی درآمد کو متنوع بنایا جائے۔ ہرسٹ کے بقول سعودی ولیعہد کا پہلا پلان ناکام رہا اور دوسرے پلان کو نافذ کرنا اس وقت ہرج و مرج کا باعث ہے۔ چونکہ سعودین عوامی سرمایہ کاری فنڈ نے کچھ دن پہلے کچھ یورپین کمپنیوں جیسا کہ اوبر وغیرہ کے شئرز خریدے تھے لیکن بازار کی اس اٹھا پٹخ کے درمیان تمام شئرز کی قیمتیں اپنی سب سے نچلی ممکن سطح پر پہونچ چکے ہیں۔
ہرسٹ جیسا تجزیہ نگار تو یہاں تک لکھتا ہے کہ سعودی عرب کے اقتصاد کی کمر اس وقت ٹوٹنے والی ہے اور خطہ کے بہت سے لوگ محمد بن سلمان کے زوال کا استقبال کریں گے چونکہ اس نے بہت لوگوں اور خاص طور پر مصر کے لوگوں کو بڑا نقصان پہونچایا ہے ، اور تیل کے بعد ،محمد بن سلمان کی کوئی حمایت کرنے والا نہیں رہے گا چونکہ وہ لوگ کہ جو ایک منٹ میں اربوں پونڈ خرچ کردیتے تھے اب ان کے ہاتھ بالکل خالی ہوچکے ہونگے‘‘۔
تیل کی عالمی قیمتوں میں تاریخی گراوٹ کے سبب، سعودی حکومت کا سب سے محکم ستون اس وقت متزلزل ہوچکا ہے۔ تیل کے علاوہ، سعودی عرب کے سیاسی نظام کے دو دیگر ستون بھی ہیں، جن میں ایک خود آل سعود کا وسیع و عریض خاندان اور دوسرے مذہبی مراکز ۔ اور گذشتہ ان چند برسوں میں یہ دونوں ستون بھی لرزہ بر اندام نظر آتے ہیں چونکہ بادشاہ سلمان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سعود خاندان کا اتحاد اور یکجہتی پوری طرح ختم ہوچکی ہے ،محمد بن سلمان نے مقرن بن عبد العزیز اور اس کے بعد محمد بن نایف کو ولیعہدی سے سبکدوش کردیا اور اسی طرح پہلے بادشاہ عبداللہ کے بیٹوں کا حکومت میں عمل دخل کو کافی حد تک محدود کردیا ۔بہت سے شہزادوں کو کرپشن اور منی لارڈنگ کے الزام میں ریٹز کارلتون ہوٹل میں حراست میں رکھا اور طرح طرح کی اذیت پہونچائیں اور انہیں الزامات کے سبب ان کی تمام دولت کو ہڈپ لیا گیا۔ اور ابھی حال ہی میں محمد بن سلمان نے اپنے چچا ، احمد بن عبدالعزیز اور اپنے چچازاد بھائی محمد بن نایف پر حکومت کے خلاف بغاوت کا الزام لگا کر انہیں جیل بھیج دیا ہے۔ عرض! محمد بن سلمان کے ان اقدامات کی وجہ سے نہ صرف یہ کے خاندان آل سعود کا اتحاد و اتفاق ختم ہوا ہے بلکہ اس پورے خاندان کے درمیان کچھ نئی بدگمانیوں اور بد نیتیوں نے بھی جنم لے لیا ہے۔
تیل اور خاندان آل سعود کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی حکومت بہت سے دینی اور مذہبی مراکز سے بھی وابستہ تھی لیکن محمد بن سلمان کے ولیعہدی کے زمانے میں یہ مراکز بدستور کمزور ہوئے اور ان کا مذہبی رنگ پھیکا پڑنے لگا بلکہ دوسری طرف مغربی طرز پر عوامی تفریحی سرگرمیاں بڑے زور و شور سے انجام پانے لگیں کہ جن کا سعودی حکومت میں پہلے نام و نشان نہیں تھا جیسے نائیٹ کلب، ڈانس کنسرٹ اور سنیما انڈسٹری کا انعقاد یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کے سبب بن سلمان کو مذہبی حلقہ کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور لوگوں نے انہیں امر بالمعروف و نہی از منکر کرنے والے کے بجائے فحشاء کی ترویج کرنے والا حکمراں کا خطاب دیدیا۔
بہر حال ! سعودی عرب کی حکومت کے یہ تینوں ستون اس وقت ایک ساتھ لرز رہے ہیں ، محمد بن سلمان کو اب اس کے اپنے خاندان والوں کے بااثر و رسوخ لوگوں کی حمایت بالکل حاصل نہیں ہے اور نہ ہی دیندار طبقہ اور خاص طور پر علماء اس کے رویہ سے سخت نالاں ہیں چونکہ جن علماء نے ولیعہد کی مخالفت کی وہ آج قیدخانوں میں ہیں اور جو مخالفت نہ کرپائے و مجبوراً اس کی اطاعت کے پابند ہیں
اب ان حالات میں مزید ستم یہ ہوا کہ تیل کی قیمتیں بھی گر گئیں جس سے رہی سہی کمی پوری ہوگئی اور اس طرح سعودی حکومت کے تینوں ستون لرزنے لگے اب ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا ان حالات میں بن سلمان کی حکومت کا شاخسانہ منہدم ہوجائے گا؟ اس سوال کا جواب سیاسی مبصرین کچھ اس دیتے ہیں کہ ابھی بہت جلد ایسا ہونا بعید معلوم ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد حجاز سے آل سعود کی حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا اور وہاں سے بادشاہت نام کی چڑیا ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گی۔