جشن نوروز:کل یوم لا یعصیٰ اﷲ فھو عید :امام علی ؑ

آج کا دور انتہائی ترقی پذیر دور ہے ذرائع ابلاغ و ترسیل کی فراوانی ہے اخبارات اور کتابوں کی بھی فروانی ہیں مطالعہ کیلئے کسی بھی قسم کی کوئی کمی نہیں ہے لہٰذا کسی بھی صورت میں مطالعہ کو ترک نہیں کرنا چاہئیے۔کوئی مذہبی ،سماجی ،سیاسی نیز اقتصادی بات کو سُننے کے بعد اس پر مزید تحقیق کرنا چاہئے۔معاشرے کی تعمیر و ترقی اور معاشرے کا سدھار علم وادب میں ہی ہے۔چونکہ میری لاعلمی اور بہت ہی قلیل مطالعہ کی وجہ سے میرے تحریر میں بہت سی خامیاں ہوں گے۔کیونکہ لاعلمی کی وجہ سے دُنیا بھر کی تعلیمی ،تہذیبی،سیاسی ،مذہبی اور اقتصادی احوال سے ناواقف ہوں۔لیکن اس کے باوجود جشن نوروز کے حوالے سے کچھ نکات قارئین کی خدمت میں تحریر کرنا چاہتا ہوں۔
نوروز فارسی کے دو مشترکہ الفاظ ہیں ’’نو‘‘ اور ’’روز‘‘۔نو کے معنیٰ نیا اور روز کا معنیٰ دن ہے۔جشن نوروز کی ابتدا کب ہوئی اگرچہ اس بارے میںکوئی دقیق اور متفق نظر اچھی طرح دستیاب نہیں ہے تاہم کچھ مورخین رقمطراز ہیں کہ ھخا منشیوں کے دور سے جشن نوروز کی ابتدا ہوئی اس کی بنیاد نامور بادشاہ جمشید نے ڈالی سرکاری طور پر سلطنت کی بنیاد رکھی تو اس دن کو نیا دن قرار دیا۔لیکن کچھ مورخین لکھتے ہیں کہ جشن نوروز اشکانی دور میں منایا جاتا تھا کیونکہ ولاش اول کو بیشتر ایرانی رسوم کا بانی سمجھا جاتا ہے دونوں روایتوں میں زیادہ اور پختہ شواھد موجود ن نہیں ہے اور کچھ مورخین نے ساسانی دورِ حکومت میں جشنِ نوروز کی ابتدا کی سفارش کی ہے ان کے پاس واضح شواھد بھی موجود ہے ۔اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
بہر حال نوروز ایک قدیم پارسی تہوار ہے جو زمانہ قدیم سے منایا جارہا ہے اگرچہ اس کا آغا ز آج سے ہزاروں برس قبل ہوا لیکن آج بھی ایران کے علاوہ پاکستان ،ہندوستان،افغانستان اور دیگر کئی ممالک میں جشن نوروز نہایت جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔چونکہ ۲۱ مارچ کے بعد موسم بہار کی آمد ہوتی ہے موسم بہار ایک قدرتی جوش ہے جو اپنے وقت پر ہر دل میں زوق و شوق پیدا کرتا ہے ۔اور ایرانی قوم اس دن نئے ھجری شمسی سال اور بہار کی آمد کی خوشی مناتے ہیں ۔اُن کا ماننا تھا کہ سورج زمین کے گرد اس دن اپنا چکر مکمل کرلیتا ہے اس طرح ھجری شمسی سال مکمل ہوتا جاتا ہے یہ قدیم ایرانیوں کا سوچ تھا چونکہ جدید سائنس اس بات کو رد کرتا ہے ۔بہر حال ایرانی عوام کو یہ جشن ورثہ میں ملا اور انہوں نے ان رسومات کو جاری رکھا اور ثقافتی عقیدت و احترام کے ساتھ جشن نوروز مناتے رہے۔اور یہ تہوار بین الاقوامی شہرت اختیار کرگیا یہاں تک کہ ۲۰۱۰ء ؁ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نوروز کو عالمی تہوار قرار دیا ۔نوروز چونکہ ثقافتی اور تمدنی تہذیب کی علامت ہیں ۔سابق صدر ایران محمد احمدی نژادکے بقول نوروز نہ صرف ثقافتی ترقی کی علامت ہے بلکہ یہ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے فروغ امن اور ایک دوسرے کو عزت دینے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
نوروز اگرچہ ایک قدیم پارسی تہوار ہے اور پارس میںقبل از اسلام بھی منایا جاتا تھا ،تاہم نوروز کچھ حد تک مذہبی انداز بھی اختیار کرگیا۔اگرچہ اکثر فقہا نوروز کو مذہبی رنگت دینے پر مذمت کرتے ہیں لیکن اکثر عوام بھی یہ ماننے سے صاف انکار کرتے ہیں اور معلیٰ بن خنیس کی روایت کا سہارا لیتے ہ۔ اس روایت کے بارے میں رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے ۱۳ مارچ ۱۹۹۵ ؁ ء کو شھید انقلاب اسلامی ادارے کے عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :۔
’’کہ معلی بن خنیس امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اتفاق سے وہ دن نوروز تھا ،حضرت نے ان سے پوچھا کیا تم نو روز سے آگاہ ہو ۔بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ اس روایت میں حضرت نے تاریخ بیان فرمائی ہے کہ حضرت نوح ؑ کا واقعہ پیش آیا ،مولائے کائنات کی خلافت کا واقعہ پیش آیا وغیرہ ۔لیکن اس روایت سے میں (رہبر معظم) کسی اور نتیجے پر پہونچتا ہوں میرا (رہبر معظم) خیا ل ہے کہ حضرت نے نوروز کی تاریخ نہیں اس دن کی ماہیت بیان فرمائی ہے اور سمجھایا ہے کہ نیا دن نوروز کسے کہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے ذریعے تمام دن مساوی ہیں اب ان دنوں میں کونسا دن نوروز بنے؟ ظاہر ہے اس کے لئے کچھ الگ خصوصیات کا ہونا ضر وری ہے،یا تو یہ خصوصیات ہو کہ اس دن کوئی اہم کوواقعہ رونما ہوا ہو یا پھر یہ خصوصیت ہو کہ اس دن آپ کوئی اہم کام انجام دے سکتے ہوں۔حضرت مثال دیتے ہیں کہ جس دن حضرت آدم ؑ اور حوا نے زمین پر قدم رکھے وہ نوروز تھا یہ بنی آدم اور نوع بشر کے لئے ایک نیا دن تھا ۔جس دن حضرت نوح ؑ نے عظیم طوفان کے بعد اپنی کشتی کو ساحل نجات پر پہنچایا وہ نوروز تھا اور ایک نیا دن تھا اس دن سے نئی تاریخ شروع ہوئی۔اسی طرح جس دن پیغمبر اکرم ؐ پر قرآن نازل ہوا وہ عالمِ بشریت کے لئے ایک نیا دن تھا۔یہ حقیقت ہے جس دن مولائے متقیان حضرت علی ؑ کو مسلمانوں کا ولی بنایا گیا وہ نیا دن تھا یہ سب کے سب نوروز اور نئے دن ہیں ۔اب خواہ یہ واقعات ھجری شمسی سال کے پہلے دن واقع ہو یا کسی اور دن۔ان واقعات کو رونما ہونے کا دن نوروز یعنی نیا دن ہے حضرت نے یہ نہیں کہا یہ سارے واقعات ھجری شمسی سال کے پہلے دن رونما ہوئے بلکہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جس دن ایسا کوئی واقعہ رونما ہو وہ نوروز اور نیا دن ہے ۔اب میں (رہبر معظم) عرض کرنا چاہوں گا کہ جس دن اسلامی انقلاب کامیاب ہوا وہ نوروز ہے ۔جس دن امام خمینی ؒ وطن واپس آئے وہ ہمارے لئے نوروز تھا‘‘۔
اسی طرح امام خمینی ؒ نوروز کے ایک پیغام میں فرماتے ہیں ’’ این عید ہر چند یک اسلامی نیست، ولی اسلام آن را نفی نکردہ است‘‘ (روزنامہ اطلاعات ۷۴۔۱۲۔۲۷)
آیت اﷲ شھروردی بھی نوروز کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:۔’’ اسلامی عیدیں عید الفطر اور عید الاضحی ہیں عید نوروز کو اسلامی عید جانتے ہوئے منانا صحیح نہیں لیکن اس روز خوشی منانے میں کوئی حرج نہیں‘‘(۱۵۹۵۰)
بہر حال عید وہ دن ہوتی ہے جس دن ہم خداوند متعال سے غافل نہ ہوں ۔اہلبیتؑ کی سیرت سے غافل نہ ہو اگر ہم خدانخواستہ خداوند متعال اور اہلبیت ؑ سے ایک غافل ہوں گے تو وہ دن روزِ عید نہیں غم کا روز ہے اگرچہ اس دن عید الفطر،عید الغدیر یا عید الاضحی ہی کیوں نہ ہو۔مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی الطالب ؑ فرماتے ہیں:۔
’’کل یوم لا یعصٰی اﷲ فیہ فھو عید‘‘ یعنی وہ دن جس دن اﷲ کی معصیت نہ کی جائے عید کا دن ہے (نہج البلاغہ فیض الاسلام صفہ ۱۲۸۶)
لہٰذا اگر ہم ۲۱ مارچ نوروز کو خداوند متعال کی بارگاہ میں نیک اعمال بجا لائیں گے ،فقیروں ،غریبوں ،مسکینوں اور یتیموں کی مدد کریں گے ،معاشرہ میں پھیلی پُرائیوں کا خاتمہ کریں گے ،شجر کاری میں حصہ لیں گے ،اور ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ باطنی صفائی کریں گے تو یقیناً یہ ہمارے لئے عید کا دن ہوگا۔اس دن اپنے باطنی گھر (دل) کو بھی (ظاہری گھر کی صفائی ،کپڑوں ،سڑکوں اور گلی کوچوں کی صفائی کی طرح) ہرقسم کی نجاسات پلیدگی سے دور رکھے تاکہ یہ معرفت الٰھی کا سرچشمہ ،محبت اہلبیتؑ کا خزینہ اور اعمال صالھہ کی آماجگاہ بن جائے۔
اس کے برکس اگر ہم نے اس دن رسم ورواج کا خاتمہ نہ کیا،معاشرے میں بُرائیوں کا سدباب کرنے کے لئے کو ئی موثر قدم نہ اٹھایا ۔اعمال صالحات انجام نہ دئے اور اﷲ تبارک و تعالیٰ سے غافل رہے تو یہ دن ہمارے لئے زحمت بن جائے گا ۔نوروز گرچہ فقھاء کے مطابق اسلا می عیدوں میں شمار نہیں کی جاتی تاہم اس دن خوشی منانے کی نفی بھی نہیں کی گئی ہے ،لیکن یہ خوشی اسلامی اصولوں کے تحت ہونی چاہئے۔
تحریر:مجتبیٰ علی ابن شجاعی ؔ گنڈ حسی بٹ ،سرینگر ،کشمیر
ولایت ٹائمز ڈاٹ کام