جناب زینب سلام اللہ علیہا مومنین کیلئے ممتاز قرآنی سرمشق:آغا سید عبدالحسین موسوی بڈگامی

سرینگر/ولایت ٹائمز نیوز سرویس/ رسولخدا (ص) کی نواسی  حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی بات :”ما رایت الا جمیلا”(میں نے الہی جمال کے بغیر کربلا میں کچھ نہیں دیکھا) کو جب حضرت آسیہ کی بات:” نجنی من فرعون و عملہ”(میں فرعون کے کفر و ظلم سے گھٹن محسوس کرتی ہوں مجھے موت دے) کو آپس میں موازنہ کریں تو حضرت آسیہ عام مومنوں کے لئے سرمشق ملتی ہے اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا خاص مومنوں عارفوں کے لئے سرمشق ملتی ہے جو عشق الہی کا سبق پڑھاتی ہے ۔

ولایت ٹائمز نیوز سرویس  کو ملی اطلاعات کے مطابق پندرہ رجب وفات حضرت زینب بنت امیرالمومنین علی علیہما السلام کی مناسبت سے معروف مذہبی رہنما آغا سید عبدالحسین موسوی بڈگامی  نے جامع مسجد پالر بڈگام میں ایک مجلس عزاء سے خطاب کیا۔

انہوں نے ؛”خواتین، انسانوں(دیندار/بے دین) کے کیلئے سرمشق” اپنے خطاب کا موضوع عنوان قرار دیتے ہوئے پہلے کلام اللہ مجید کی 66 ویں سورہ ، سورہ تحریم کا کشمیری میں ترجمہ بیان کرتے ہوئے سورہ کی آخری تین آیات کو حضرت زینب بنت امیرالمومنین علی علیہما السلام کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو کائینات کی اکلوتی خاتون قرار دیا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار اسلامی مبلغ آغا سید عبدالحسین بڈگامی نے سورہ تحریم کے حوالے سے بتایا؛ تقوی اور اللہ سبحان و تعالی کو حاضر و ناظر ہونے پر ایمان ہونا واحد نجات کا معیار ہے، جس کو چھوڑ کر کوئی بھی نسبت انسان کے نجات کے لئے ضامن نہیں بن سکتا ہے، انسان سب سے بڑی نسبت اور سب سے قریبی رشتہ شریک حیات بھی رکھتا  ہو پھر بھی انسان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں مگر یہ کہ عمل سے اس نسبت کو ثابت کر دکھائے۔جس طرح حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویاں اللہ کے صالح بندوں کے ساتھ خیانت کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو اس عمل سزا (جہنم) سے نہیں بچا سکی تو پھر ایک پیرو کار کو صالح بندوں سے پیروکاری کی نسبت کہاں بچا سکتی ہے، یہ موضوع انتہائی غور طلب ہے۔

آغا سعحب نے مزید کہا کہ جس طرح صالح بندے صالح عمل کے بغئر کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے ہیں ٹھیک اسی طرح برے لوگ بھی اچھے لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں جس طرح فرعون کی بیوی حضرت آسیہ علیہا السلام کو فرعون کا کفر اور ظلم آلودہ نہیں کر سکی ہے اور اللہ سبحان وتعالی نے حضرت آسیہ کا کفر و ظلم کی گھٹن میں اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنے کو سراہا ہے کہ جب حضرت آسیہ نے کہا کہ اے اللہ مجھے فرعون سے اور اسکے کاموں سے بچا مجھے اپنے پاس بھلا۔

آغا سید عبدالحسین بڈگامی (آغا سعحب) نے سورہ تحریم کے حوالے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو عارفوں کے لئے اکلوتی سرمشق اور رہنما سمجھاتے ہوئے سورہ تحریم کی گیارہویں آیت کی روشنی میں حضرت آسیہ کا فرعون کے کفر و ظلم کی گھٹن میں موت کی آرزو کرنا، جسے اللہ نے مومنوں کے لئے سرمشق قرار دیا، اور جب حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوں کربلا میں کفر و ظلم کی گھٹن کی بینظیر تاریخ خلق کرنے کے بیچ موت کی آرزو نہیں کرنا بلکہ فرماتی ہیں کہ ؛میں نے کربلا میں کفر و ظلم کی گھٹن میں اللہ کا جمال دیکھا.

معروف عالم دین نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا یہ مشہور جملہ “ما رایت الا جمیلا”(میں نے الہی جمال کے بغئر کربلا میں کچھ نہیں دیکھا) کا حدیث قدسی کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہا؛ نبی آخرالزمان حضرت محمد مصفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا: جس نے اللہ کو ڈھونڈا اس نے اللہ کو پایا، جس نے اللہ کو پایا اس نے اللہ کو پہچانا، جس نے اللہ کو پہچانا اس کو اللہ سے محبت ہو گئی ، جس کو اللہ سے محبت ہو گئی وہ اللہ کا عاشق بن گیا اور جو اللہ کا عاشق بن گیا اللہ اس کا عاشق بن گیا اور اللہ جس کا عاشق ہو جاتا ہے وہ اسے مار دیتا ہے اور اللہ جس کو مارے اس کے خون کا بدلہ اللہ پر عائد آ جاتا ہے اور جس کے خون کا بدلہ اللہ پر عائد آ جاتا ہے اللہ اس کے خون کا بدلہ بن جاتا ہے۔ یعنی جو انسان اللہ کی راہ میں مصیبتیں جھیلتا ہے اللہ اسے کہتا ہے کہ میں تیرے صدقے جاؤں، میں تیرے قربان جاؤں۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی بات :”ما رایت الا جمیلا”(میں نے الہی جمال کے بغئر کربلا میں کچھ نہیں دیکھا) کو جب حضرت آسیہ کی بات:” نجنی من فرعون و عملہ”(میں فرعون کے کفر و ظلم سے گھٹن محسوس کرتی ہوں مجھے موت دے) کو آپس میں موازنہ کریں تو حضرت آسیہ عام مومنوں کے لئے سرمشق ملتی ہے اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا خاص مومنوں عارفوں کے لئے سرمشق ملتی ہے جو عشق الہی کا سبق پڑھاتی ہے ۔

واضح رہے 13 نومبر 2020 کو آگ کے ایک ہولناک واردات میں  وسطی کشمیر ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے آغا سید عبدالحسین کا پورا گھر جملہ اثاثوں سمیت نذر آتش ہوا جس کے دوران وہ خود بھی زخمی ہوئے اور پھر اسپتال میں کئی دن زیر علاج رہنے کے بعد کرونا میں بھی مبتلا ہوئے اور تقریبا  108دن بعد پہلی بار مجلس عزاء سے خطاب کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سال 2014ء میں “آغا  خاندان” بڈگام کے معروف مبلغ اور عالم دین آغا سید عبدالحسین نے ایران ہجرت کی تھی اور پہلی دفعہ وادی واپس لوٹے ہیں۔