مسئلہ کشمیر بعد از فلسطین عالمِ اسلام کا ایک اہم مسئلہ ہے اسکو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا یہ مسئلہ عالمِ انسانیت کا مسئلہ ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ اگر آج مسلمانِ عالم بالخصوص ملت کشمیر متحد تے اور ایک شعار کا انتخاب کرتے اُمت مسلمہ کے تمام مسائل بشمول مسئلہ کشمیر بھی خودبخود حل ہوچکے ہوتیں۔خانہ شیطانِ بزرگ UNO کے بجائے مسلمانِ عالم نے متحد ہو کر تمام مسائل حل کئے ہوتے اس وقت پورے عالم میں مسلمانوں کا خُون حیوانوں سے سستا نہیں ہوتا۔ ہمارے مسلمان مُمالک ویران نہیں کئے جاتے رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )بھی قبرِ مُبارک میں بے چین ہونگے فریادِ رسن رہے ہونگے اوراپنی اُمت کی یہ حالت دیکھ کر قبرِ مطہر میں اُمتی اُمتی کی فریادیں کرتے ہونگے کیا یہ میری وہی اُمت ہیں جسکے لئے میں نے اتنی تکلیفیں برداشت کی جو تمام انبیاء علیھم السلام کو پیش آئیں وہ سارے تکلیفیں مُجھ میں اکھٹیں ہوئی اپناخاندان اور صحابہ کرامؓ قربان کیا تاکہ میری اُمت گمراہ نہ ہو سکے۔ کیا نام نِہاد مُسلمان مُمالک نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اُمتِ حضرتِ محمدِ مصطفیٰ پہ ہر جگہ ظلم و سِتم جاری ہیں، ہر جگہ مُسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے ۔ایسا
از قلم :سید ماجد رضوی
بسم اللہ الرحمٰن الرِحیم
جہاں وادی گُلپوش اپنے حسین و جمیل قدرتی مناظر ، آبشاروں ،لالہ زاروں اور کوہ ساروں کی وجہ سے جنتِ بے نظیر کا درجہ رکھتی ہے اور نہ صرف روحانیت کی آماجگاہ رہی ہے بلکہ علم و ادب و فنونِ لطیفہ کا ایک لاثانی گہوارہ بھی رہی ہے اپنی اس روایت کو بر قرار رکھتے ہوئے یہ سر زمین بُلند پایہ دانشوروں، مورخوں ، مفکروں، فلسفیوں، بزرگوں اور صوفیائے کرام کو جنم دے کر اپنی مصنوعی ذوق و جمال کو دو چند کر رہی ہے۔ جنتِ الفردوس وادی گلپوش دنیا میں اپنا الگ مقام رکھتی ہے۔
بقولِ شاعر !
اگر فردوس بروئے زمین است
ہمیں است ہمیں است ہمیں است
دائرہ فکر کو کھول کر جب تاریخ کا مطالعہ کیا جاتا ہے 1947 ء تک جموں و کشمیر ایک الگ مُلک رہ چُکاہے جب قبائلیوں نے حملہ کیا تو یہاں کے ذی حس وبا شعور حضرات نے اپنی فوجی قوت کو مدِ نظر رکھ کر ایک حکمت عملی کے تحت بھارت سے فوجی مدد مانگی تاکہ اس مُلک کو قبائلیوں سے بچا یا جا سکے۔ قبائلیوں کے نکلنے کے بعد بھارت نے اپنے جابرانہ ا قدام جمانے کے لئے لوگوں کو فریب دیتے ہوئے رفتہ رفتہ جموں و کشمیر کو مادی نِگاہ سے دیکھ کر اس مُلک کو مُلک کے بجائے ایک ریاست کے طور پر دنیا کو دکھانے کی کوشش کی اور کر رہا ہے کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے لیکن حق کو بناوٹ کے اُصولوں پے جتنا چُھپایا جائے اتنا ہی ابھر کو سامنے آجاتا ہے ۔ تنازعہ کشمیر سورج کی طرح چمک رہا ہے جن کو سورج نہیں دکھتا ہے وہ مثلِ چمکادڈ ہیں ۔بھارت رفتہ رفتہ یہاں کے لوگوں کو مکارانہ اور مُنافقانہ پالسیوں کے تحت فریب دیتارہا اور یہاں انتخابات کراکے اپنے کتھ پتلی حکمران منتخب کئے تاہم یہ روایت بدستور جاری ہیں ۔ ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہونا چائیے کہ جواہر لال نہرو نے سرینگر کے قلب لال چوک میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ رائے شماری کر کے مسلہ کشمیر کو حل کیا جائے گا لیکن وہ وعدہ وعدہ ہی رہ گیا اس بات کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی کشمیر کے خاطر پالسی کیا ہے آج تک کشمیری اپنے حق کے خاطرجدو جہد کرتے آرہے ہیں کہ ہمیں اپنا چھینا ہوا حق واپس دِیا جائے لیکن جب انسان کی آنکھوں پہ نفسِ امارہ کا پردہ پڑ جاتا ہے اور اقتدار کی حوس مٹنے کا نام نہیں لیتی ہے پھر جابروں کو انسانیت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے وہ صرف وادی گُل پوش جسکو خُدا وندِ عالم نے نعمتوں سے نوازا ہیں مادی نِگاہ سے دیکھتے ہے پھر ایسے جرائیم انجام دیتے ہیں کہ ابلیس کا سر جُھک جاتا ہے اگر آج کشمیر کے حالات کو دیکھا جائے تو جب سیبھارت نے فریبانہ و منافقانہ پالسی اختیار کی ہوئی ہے وادی گُل پوش جنتِ بے نظیر لہو لہاں ہیں ۔مظلوم کشمیریوں نے اپنے حق کے خاطر 1931 ء سے لے کر آج تک لاکھوں قربانیاں دی ہیں اپنا گھر ،سہارا اس مقصدِعظیم کے لئے قربان کیے کہ مظلوم کشمیر کا سہارا بن کر اس جدو جہد کو آگے بڑھاتے رہے اس اُمید کے ساتھ ہمارا لوٹا ہوا وطنِ عزیز پھر سے آباد ہو جائیں ۔ آج تک نام نِہاد (UNO) میں بہت سی قرار دادیں بخاطر کشمیر پاس ہوئی ہے لیکن کسی قرار داد کو عملی جامہ نہ پہنایا گیا اگر یہ کہا جائیے کہ (UNO) نے آج تک صرف مسئلے پیدا کئے بلکہ مسئلہ حل نہ کیا توبے جا نہ ہوگا ۔بقولِ امام المُسلمین بانی اسلامی جمہوریہ ایران امام خُمینی ؒ (UNO)شیطانِ بزرگوں کا گھر ہیں ان سے مُسلمان مُمالک اپنے مسائل کے حل کی تلاش کی اُمید نہ رکھیں بلکہ اتحادِ بینُ المسلمین کو عملی جامہ پہنا کر اور’’ حبل اللہ ‘‘ کو مضبوتی سے پکڑ کر خُوداُمتِ مُسلمہ کے مسائل حل کریں چائیے وہ مسئلہ فلسطین ہو ،مسئلہ کشمیر یا اور کوئی مسئلہ امام خُمینی ؒ نے تنازعہ کشمیر کو 1965 ء میں قبل از ایرانی انقلاب جب وہ حوزہ علمیہ قُم میں درس و تدریس کے کام میں مشغول تھے فرمایا ۔
’’ اگر توحید کلمہ کُنید چطور ہندی بدبخت می تواند کشمیرِ عزیز را از ما بگیرد و از مسلمین بِگیرد و ہیچ کارے بر نہ آید ‘‘
ترجمہ : ’’ اگر آپ کلمہ توحید کو اپنا شعار بنا لیتے تو مُمکن نہیں تھا بد بخت بھارت ہمارے عزیز کشمیر کو ہم مُسلمانوں سے چھین لیتے اور مُسلمانِ عالم کچھ نہ کر پاتے ‘‘ ( امام خُمینی ؒ 1965ء )
مسئلہ کشمیر بعد از فلسطین عالمِ اسلام کا ایک اہم مسئلہ ہے اسکو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا یہ مسئلہ عالمِ انسانیت کا مسئلہ ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ اگر آج مسلمانِ عالم بالخصوص ملت کشمیر متحد تے اور ایک شعار کا انتخاب کرتے اُمت مسلمہ کے تمام مسائل بشمول مسئلہ کشمیر بھی خودبخود حل ہوچکے ہوتیں۔خانہ شیطانِ بزرگ UNO کے بجائے مسلمانِ عالم نے متحد ہو کر تمام مسائل حل کئے ہوتے اس وقت پورے عالم میں مسلمانوں کا خُون حیوانوں سے سستا نہیں ہوتا۔ ہمارے مسلمان مُمالک ویران نہیں کئے جاتے رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )بھی قبرِ مُبارک میں بے چین ہونگے فریادِ رسن رہے ہونگے اوراپنی اُمت کی یہ حالت دیکھ کر قبرِ مطہر میں اُمتی اُمتی کی فریادیں کرتے ہونگے کیا یہ میری وہی اُمت ہیں جسکے لئے میں نے اتنی تکلیفیں برداشت کی جو تمام انبیاء علیھم السلام کو پیش آئیں وہ سارے تکلیفیں مُجھ میں اکھٹیں ہوئی اپناخاندان اور صحابہ کرامؓ قربان کیا تاکہ میری اُمت گمراہ نہ ہو سکے۔ کیا نام نِہاد مُسلمان مُمالک نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اُمتِ حضرتِ محمدِ مصطفیٰ پہ ہر جگہ ظلم و سِتم جاری ہیں، ہر جگہ مُسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے ۔ایسا لگتا ہے نام نہاد مسلمانوں کے کا اندرون طاغوت سے مِلا ہوا ہیں اور بظاہر مُسلمان دکھتے ہیں قرآن مجید کی نِگاہ میں ایسے مسلمانوں کو مُنافقین کہا گیا (سورہ نمبرمُنافقون 63)یا وہ ابھی بھی خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔اشکوں سے لبریز آنکھیں ، زخموں سے چھلنی جگر، رستی زہر، گھولتی یادوں کی ایک مُسلسل تصویر ، مظلومانِ جہاں مسلمانوں سے مدد کی التجا کرتے ہیں اور مسلمان عالم اپنے اقتدار کی ہوس میں پڑے ہوئے ہیں اپنے عالی شان محلوں میں ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں مظلوم جائیں تو جائیں کہاں ۔۔۔؟ اے زمانہ تیرا کیا بگڑ جاتا اگر تو ہر دور میں محسنِ انسانیت مظلوموں کی داد سننے والا انصاف دینے والا جابر و غاصب سے حق دلانے والا عطا کر دیا کرتا۔ حکومتوں کی آتشیں انتقام جب بستیوں کو جلا کر خاک کر دینا چاہتی ہیں تو ضرور یاد آتا ہے جس نے خود اپنے سے پہلے قاتل کو جامِ شیریں پِلا دیا تھادرد بھری آواز پُر نم آنکھیں و سرِ اطہر سے خون ٹپکتے ہوئے کہتا ہے ’’ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی بن جاؤ ‘‘( امام علی ؑ )اور جب اقتصادی ، سیاسی، ظلم کے شکنجوں میں انسانی آزادی کا دم گھٹنے لگتا ہے تو محسنِ انسانیتؐ کے الفاظ کانوں سے ٹکراتے ہیں ’’ کسی کو غُلام نہ بناؤ سب تمہارے طرح اللہ کے بندے ہیں ‘‘ اور جب نسلی اور مذہبی تعصب قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتی ہیں تو رحمت اللعالمینؐ کی درد میں ڈوبی ہوئی صدا فضاؤں میں گونجتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ’’ ہر انسان خلقت میں تمہارا بھائی ہیں ‘‘ اور جب ستم کش مظلوم عالمی عدالتوں کے دروازے سے مایوس لوٹتے ہیں توضمیرِ انسانی کی گہرایوں سے کوئی ہمدرد انسانیت پُکارتا ہے ’’ خدا کی قسم ۔! ظالم سے مظلوم کا حق وصول کر کے رہوں گا ظالم کی ناک میں نکیل ڈال کے کُشاں کُشاں حق کے چشمے تک لاؤں گا چائیے اس سے کتنا ہی ناگوار ہو۔ اور جب ظلم کی انتہا ہو جاتی ہے کوئی دردِ انسانیت رکھنے والا خون میں لت پت زخموں و تیروں سے بدن کو پارہ پارہ کئے جانے والے سید الشہدا ؑ کی درد بھری صدا فِضاؤں میں گونجتی ہیں ’’ ظالم کے خلاف جتنی دیر سے اُٹھو گے اتنی ہی قربانیاں دینی پڑیں گی ‘‘دردِ مظلومین رکھنے والا صادق آلِ محمد ؐنالہ وفریاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ کُلُ یوم عاشورہ کُلُ ارض کربلا‘‘ یعنی ہر دن عاشورہ ہے ہر زمین کربلا ہے جس دن ظلم کے خلاف آواز بُلند کرو گے روزِ عاشورہ ہے اور جہاں بھی کرو گے زمین کربلا ہے چاہے دنیا کے کسی بھی گوشے میں ظُلم ہو رہا ہو آواز بلند کرو کیونکہ ۔۔۔؟ مظلوم کی آہ سے عرش لرزتا ہے اس دور میں دردِ انسانیت رکھنے والا بشر فقیری میں زندگی بسر کرنے والا ایک بازو راہِ اسلام میں دینے والا مسلمانوں کو خلوص و درد بھری آواز سے پکارتا ہے ’’ اے مسلمانوں آپ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نہ صرف فلسطین ،افغانستان ، پاکستان، بحرین ،عراق، شام، یمن اور برما وغیرہ میں ہو رہے خون خرابے کو بند کرنے کے لئے اپنا رول ادا کرے بلکہ تنازعہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے بھی سفارتی سرگرمیاں متحرک کریں آج تک کشمیری لوگوں نے کافی جان و مال عزت و آبرو کی قربانیاں دی ہیں لیکن مسلمان ممالک کو اس موقع پر خاموش تماشائی کا رول ادا نہیں کرنا چائیے بلکہ تمام تر توجہ جموں و کشمیر پر مرکوز کر کے اس کا حل تلاش کرنے کے لئے بھارت پر زور دیں ‘‘ ( امامِ خامنہ یٰ مدظلہ عالی )20/11/2010:پیغمبران الٰہی ؑ ، انبیاء و اولیاءِ کرام کی ہمیشہ یہی جستجو رہی ہے کہ اُمتِ واحدہ کو تشکیل دیں تو حید کے سائے میں تمام انسانوں کو اتحاد و یگانیت کی راہ پر لانا انبیاء ؑ کا مشن رہا ہے اسی مشن کے خاطر خدا وندِ عالم نے اپنے نمائندے بھیجیں تاکہ اس مشن کو مکمل کر سکے۔ بڑی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے مظلومِ کشمیر میں قیادت کا فقدان ہیں لوگوں میں جزبہ حق بہ درجہ اتم موجود ہیں کسی بھی قربانی سے آج تک دریغ نہیں کیا ان قربانیوں کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئے اے راہِ حق و حریت کے پاسدارو ں متحد ہو جاؤ قرآنِ کریم کی اس درد بھری آواز پہ لبیک کریں ’’ واعتصمو بِحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا ‘‘
ایک ہو جاتے تو بن ہو جاتے خورشید مُبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا فائدہ ( علامہ اقبال ؒ )
جب مقصد ایک ہے تو راستے الگ الگ کیوں ۔۔۔۔۔؟اگر متحد نہیں ہوتے تو ہم اس قرآنی آیات کو مذاق اُڑا رہے ہیں روزِ محشر خُدا وندِ عالم کے سامنے جواب دینا ہیں
دردِ اُمت رکھنے والے حکیم الاُمت نے مسلمانوں کے حالات دیکھ کر اسطرح دل سے نکلتی درد بھری آواز میں فریاد دی۔۔۔۔۔
منفعت ایک ہیں اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ دین بھی ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
آہ!آج وہ کشمیر ہیں محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر (علامہ اقبال ؒ )
سُنا ہیں بہت سستا ہے خون اس وادی میں
اہلِ دانش کہتے ہیں جس سے جنتِ بے نظیر
(مقالہ نگار کشمیر یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور ماگام بڈگام سے تعلق رکھتے ہیں)