جوہری معاہدہ سے امریکی فرار عالمی بحران کا پیش خیمہ 

عالم اسلام اچھی طرح واقف ہے کہ استعمار ایران کے جوہری پروگرام سے خوفزدہ نہیں ہے ،کیونکہ ایران پہلا ملک نہیں ہے جو نیوکلیائی طاقت کا حامل بنا ہے۔امریکہ کو یہ ڈر ستا رہاہے کہ جو ملک بغیر جوہری طاقت کے ہماری گیدڑ بھبکیوں سے نہیں ڈرا وہ جوہری طاقت حاصل کرنے کے بعد ہماری دھمکیوں سے کیا ڈرے گا۔چلئے مان لیتے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام پر امن نہیں ہے ،تو امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے جوہری طاقت کے حصول کے بعد دنیا کے لئے کونسا امن و آشتی کا فارمولہ پیش کیاہے۔

عادل فراز

ایران جوہری معاہدہ سے امریکہ کا فرار ہونا تعجب خیز نہیں ہے۔ہمیں اس کا اندازہ تبھی ہوگیا تھا جب امریکہ نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔یہ اعلان مسلم دنیا کو مشتعل کرنے کے لئے تھا مگر انہیں مشتعل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جن کا ضمیر مردہ اور ایمان نیلام ہوچکا ہو۔اس اعلان پر پوری مسلم دنیا خاموش تماشائی بنی رہی کیونکہ کسی مسلمان ملک میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کرسکے،اور جو یہ جرأت رکھتے ہیں امریکہ کے ساتھ پوری مسلم دنیا اس کے خلاف متحد ہوجاتی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ بیت المقدس کو قبلہ اول کا درجہ دینے والے مسلمان امریکہ کے اس فیصلے پر مہربلب تھے۔اس خاموشی کا راز ان سے کسی نے نہیں پوچھا اور جو اس خاموشی کا علم رکھتے تھے انکے لبوں پر بھی سونے اور چاندی کی مہریں جڑ دی گئیں۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں معاہدہ کی تنسیخ کے بعد تقریر کرتے ہوئے کہاکہ’’اس جوہری معاہدہ کا مقصد امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو محفوظ رکھنا تھا لیکن اس معاہدہ نے ایران کو یورونیئیم کی افزودگی جاری رکھنے کی اجازت دیدی۔تباہ کن ایران جوہری معاہدہ امریکہ کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔یہ معاہدہ ایران کو عدم استحکام پھیلانے ،بشمول دہشت گردی کی معاونت جیسی کاروائیوں سے نہیں روکتا‘‘۔آخر ٹرمپ کے دل کی بات زبان پر آہی گئی۔امریکہ خطہ میں عدم استحکام کا ذمہ دار ایران کو تسلیم کرتاہے۔امریکہ کے دہن میں بھی اسکی اپنی زبان نہیں ہے بلکہ یہ زبان اسرائیل کی ڈالی ہوئی ہے جو رٹّو طو طے کی طرح وہی دہراتی ہے جو اسرائیل چاہتاہے۔اگر خطہ میں عدم استحکام کی تمام تر ذمہ داری ایران پر عائد ہوتی ہے تو پھر امریکہ اوراسکے اتحادیوں کی افواج مشرق وسطیٰ میں ڈیرہ کیوں ڈالے ہوئے ہیں؟۔ابھی تک شام میں استحکام برقرار نہیں ہوسکا ہے۔یمن ابھی تک امن کا منتظرہے۔عراق اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی وہاں کے عوام کے لئے پریشان کن ہے ،اسکے باجود امریکہ اپنی غلطیوں اور جنایت کاریوں کا الزام دوسروں کے سر تھوپنے کا عادی ہے۔حقیقت یہ ہے استعماری طاقتیں یمن اور شام میں اپنی شکست سے بوکھلائی ہوئی ہیں۔سعودی عرب یمن میں استعمار کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں بری طرح ناکام رہاہے۔یمن کو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکا اور نہ استعماری زرخرید منصور ہادی اور عبداللہ صالح کو یمنی عوام پر دوبارہ مسلط کرنے میں کامیابی ملی ہے۔حوثیوں کی مختصر سی جماعت کی مزاحمت کو ختم کرنا ’ناکوں چنے چبانے‘ سے بھی زیادہ سخت ثابت ہورہاہے۔حوثیوں نے سعودی عرب اور اسکے سیاسی پشت پناہی کرنے والوں کی طاقت کو کھلے میدان میں ٹکر دی ہے اور اب تک ’ھل من مبارز‘ کا نعرہ بلند کررہے ہیں۔لبنان میں حزب اللہ جیسی مقاومتی تنظیم، جس پر ایرانی حمایت یافتہ ہونے کا الزام ہے ،کو شکست نہیں دی جاسکی ہے۔حزب اللہ جو بیک وقت کئی محاذ پر نبرد آزما ہے اور استعماری طاقتوں کو ہر محاذ پر منہ کی کھانی پڑی ہے ،لہذا امریکہ کی مثال ’کھسیانی بلّی کھمبا نوچے‘ والی ہوگئی ہے۔اس پر یہ کہ حزب اللہ اور اسکے سیاسی اتحادیوں کو ایک بار پھر لبنانی انتخابات میں سنہری کامیابی ملی ہے جو استعمارکو ہضم نہیں ہورہی ہے۔اس لئے اب آئے دن نت نئے ہتھکنڈے استعمال کئے جائیں گے اور طرح طرح کے منصوبے اور سازشیں معرض وجود میں آئیں گی۔امریکہ کا جوہری معاہدہ سے فرار کرنا غیر متوقع عمل نہیں ہے ،اس کی پیشن گوئی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسی وقت کردی تھی جب امریکہ سے یہ معاہدہ طے پایا تھا ،مگر اس وقت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے کور ناقدین نے انکی اس پیشن گوئی کا تمسخرکیا تھا ،لیکن آج وہی ناقدین اس طرح چپ ہیں جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔
دوسری طرف استعمار ایران میں عدم استحکام اورخانہ جنگی کو فروغ دینے میں بری طرح ناکام رہاہے۔گزشتہ دنوں مہنگائی کے خلاف جو عوامی مظاہرے ہوئے انہیں استعمار اپنے مفاد میں پوری طرح استعمال نہیں کرسکا۔استعمار چاہتاہے کہ ایرانی عوام پر ایک بار پھر اپنے گماشتوں کو مسلط کرکے ایرانی عوام کو اپناغلام بنالیاجائے۔امریکہ سب کچھ برداشت کرسکتاہے مگر مسلمان ممالک پر مذہبی افراد کی حکومت برداشت نہیں کرسکتا۔ایسا مذہبی طبقہ جو نظام ولایت فقیہ کا قائل ہو اور اس نظام کو انسانیت کی فلاح کا ضامن تصور کرتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ معاہدہ کی تنسیخ کے بعد وائٹ ہاؤس میں اپنے شیطانی ارادوں کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وہ ایران کی جمہوری حکومت کو ہٹاکر ایک نیا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں،یہ اعلان جوہری معاہدہ کی تنسیخ کے پس پردہ کارفرما ذہنیت کو باالکل واضح کردیتاہے۔ایران کو تباہ کرنے کے لئے امریکہ کو اب تک کوئی ایسا جواز نہیں مل سکا ہے جسکے ذریعہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ پوری دنیا کو مطمئن کرسکے۔لہذا اسرائیل کے ذریعہ ایرانی جوہری پروگرام کی فرضی فائلیں عام ہونے کے فوراَ بعد امریکہ کا جوہری معاہدہ سے فرار کرجانا سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔امریکہ ایران کی جمہوری حکومت کا خاتمہ چاہتاہے جس کے لئے وہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد سے مسلسل کوششیں کرتا آرہاہے ،مگر ہر بار اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔2015ء میں جوہری معاہدہ کے بعد امریکہ سمیت پوری دنیا کو یہ یقین تھا کہ ایران معاہدہ کی پاسداری نہیں کرسکے گا مگر ایسا نہیں ہوا،امریکہ منتظر تھا کہ ایران معاہدہ کو ختم کردے تاکہ وہ ایران کے خلاف اپنی مفسدانہ اور تباہ کن پالیسیوں کو نافذ کرسکے،لیکن ایران معاہدہ کی شرائط کا پابند رہا۔بالآخر امریکہ انتظار کی تاب نہ لاسکا اور خود ہی معاہدہ کو ختم کرکے عالمی عدالت میں مجرم کی حیثیت سے کھڑا ہے مگر اسکی سزا معین کرنے کی جرأت کسی میں نظر نہیں آتی۔یہ بھی قابل غورہے کہ آخر امریکہ ایران کے خلاف اس قدر سازشوں میں کیوں مصروف ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ایران کی خودمختاری اور ’’غیر خدا کے آگے سر نہ جھکانے‘‘ کی ضد پر برانگیختہ ہے۔اگر ایران بھی دوسرے مسلمان ملکوں کی طرح امریکے کے تلوے چاٹنا شروع کردے تو آناَ فاناَ میں تمام پابندیاں ہٹادی جائینگی اور دیگر مراعات بھی ایران کو مل جائینگی لیکن ایران کا نعرہ ہے’’ جو خدا سے ڈرتاہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا‘‘،اس نعرہ نے ہی امریکہ کو شیطانی منصوبہ بندیوں پر اکسایاہے اور وہ یقیناَاپنی فطرت سے باز نہیں آئے گا۔
2017ء میں جس وقت ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی عرب اور اسکے اتحادی مسلمان ممالک کے ساتھ رازدارانہ اجلاس کیا تھا اسی وقت یہ طے ہوگیا تھاکہ استعمار اور اسکے زر خرید مسلمان ملکوں کی پالیسی کیا طے پائی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور اسکے اتحادی اپنے علاوہ پوری دنیاکے مسلمانوں کو احمق اور غیر سیاسی تصور کرتے ہیں جبکہ اب یہ واضح ہوچکاہے کہ سعودی عرب اور اسکے سیاسی اتحادیوں کے مقاصد کیاہیں۔اس اجلاس کے فوراَ بعد مشرق وسطیٰ کا سیاسی منظر نامہ جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہواہے وہ انکے منصوبوں اور سازشوں کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔اس منظر نامہ میں اہم موڑ اس وقت رونما ہوا جب اچانک اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو نے ایرانی نیوکلیائی پراجیکٹ کے فرضی دستاویز پیش کرکے ایران کو جوہری معاہدہ کا مخالف بتاکر دنیا کو حیران کردیا۔مگر اسرائیل کی اس منصوبہ بند سازش کا علم دنیا کو تھا لہذا کسی نے اسرائیل کے پروپیگنڈہ پر یقین نہیں کیا سوائے امریکہ کے۔امریکہ نے نتین یاہو کے فرضی انکشاف پر یقین کرکے ایرانی جوہری معاہدہ سے خود کو علاحدہ کرلیا۔جبکہ اس معاہدہ کے محرک سابق امریکی صدر براک اوباما نے ٹرمپ کے اس فیصلے کو غیر ساسی اور تباہ کن بتایا ہے کیونکہ اوباما اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹرمپ کے اس احمقانہ فیصلے کا خمیازہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے علاوہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔اقوام متحدہ اور معاہدہ کے پابند دیگر ممالک نے بھی امریکی اقدام کی تائید نہیں کی ہے مگر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ،کیونکہ ایران کے خلاف پوری دنیا کی ذہنیت ایک جیسی ہے اور اسکے اسباب بھی کسی سے مخفی نہیں ہیں۔
عالم اسلام اچھی طرح واقف ہے کہ استعمار ایران کے جوہری پروگرام سے خوفزدہ نہیں ہے ،کیونکہ ایران پہلا ملک نہیں ہے جو نیوکلیائی طاقت کا حامل بنا ہے۔امریکہ کو یہ ڈر ستا رہاہے کہ جو ملک بغیر جوہری طاقت کے ہماری گیدڑ بھبکیوں سے نہیں ڈرا وہ جوہری طاقت حاصل کرنے کے بعد ہماری دھمکیوں سے کیا ڈرے گا۔چلئے مان لیتے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام پر امن نہیں ہے ،تو امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے جوہری طاقت کے حصول کے بعد دنیا کے لئے کونسا امن و آشتی کا فارمولہ پیش کیاہے۔امریکہ کا یہ کہنا کہ ’’ایران کا جوہری پروگرام خطہ میں عدم استحکام اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے لئے ہے‘‘مضحکہ خیز ہے۔وہ ملک جس نے پوری دنیا کو دہشت گردی کی بھٹی میں جھونک دیاہو اسے مشرق وسطیٰ میں استحکام کی فکر ستارہی ہے۔جبکہ خطہ میں جتنی بھی دہشت گردی ہے اسکے پیچھے امریکہ و اسرائیل کا ہاتھ ہے۔عراق کی تباہی کے بعد جو رپوٹ منظر عام پر آئی ہے ،جس میں یہ دعویٰ کیاگیاہے کہ جارج بش اور اسکے اتحادیوں کا عراق پر حملہ کرنا ایک سیاسی غلطی تھی ،کیا امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک اپنی اس غلطی پر عراقی عوام سے معافی طلب کریں گے ؟عراقی عوام کا جو جانی و مالی و ترقیاتی نقصان ہواہے اسکا جبران ممکن ہے ؟۔آج بھی امریکہ وہی غلطی دہراہاہے جو اسکے شرمندہ ماضی کی یادگارہے۔مگر امریکہ یہ یاد رکھے کہ ایران ،عراق نہیں ہے۔ایران کی عوام اور علماء نے کبھی قربانیوں اور کسی بھی طرح کے ایثار سے گریز نہیں کیاہے۔لہذا کسی غیر سیاسی اقدام سے پہلے اسکے عواقب پر اچھی طرح غور کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔