اسلام اتحاد و وحدت کا دین ہے، اسلام معاشرت پسند دین ہے، اس میں رہبانیت نہیں ہے، اسلام انسانی رشتوں کے جوڑنے اور مل جل کر رینے کی تلقین کرتا ہے، انسانیت کو مختلف گروہ بندیوں میں تقسیم کرنے والے تمام عناصر کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، اسلام نے تین قسم کے عالمی بھائی چارہ کا تصور دیا ہے، ایک اسلامی بھائی چارہ، اس بھائی چارے کے ذریعے اسلام نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک وحدت میں پرو دیا ہے، ان کا کا تعلق دنیا کے جس ملک سے ہو، یہ جون سی زبان بولتے ہوں، ان کا جس نسل سے تعلق ہو، اسلام نے سب کو بھائی بھائی بنا دیا۔ دوسرا وطنی بھائی چارہ ہے، اس کے ذریعے اسلام نے ایک علاقے میں بسنے والے تمام لوگوں کا بلاتفریق مذہب و فرقہ بھائی بھائی قرار دیا، اس کے ذریعے اسلام نے علاقائی وحدت کا تحفظ کیا ہے، تاکہ ایک علاقے کے رہنے والے امن وسکون کی زندگی گزاریں۔
اسلام کا تیسرا بھائی چارہ انسانی بھائی چارہ ہے، اسلام پوری دنیا کو انسانی وحدت کی لڑی میں پرو دیتا ہے، ہر انسان کے دوسرے انسان پر حقوق ہیں، اسلام ان حقوق کی پاسداری کا حکم دیتا ہے، ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تمام حقوق کو ادا کرے۔ مثلاً اسلام نے ہر انسان کی زندگی کو تحفظ دیا ہے، اسی لیے یہ اسلام کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی انسان پانی میں ڈوب رہا ہے، اس کا تعلق جس مذہب سے ہے، اس کی جان بچانا ضروری ہے۔ اگر کوئی مسلمان نماز پڑھ رہا ہے تو اسلام حکم دیتا ہے اس نماز کو توڑ دو اور ڈوبنے والے انسان کی جان بچاؤ اور اگر تم نے انسانی جان نہیں بچائی تو ایک حکم خدا کی مخالف کی، جس پر قیامت کے دن سوال ہوگا۔
حج وحدت امت کی علامت ہے، جو تمام مسلمانوں کو ایک الہی پلیٹ فارم پر متحد کر دیتا ہے، آج ہم حج کے اتحاد و وحدت والے پہلو پر گفتگو کریں گے، اسلام کے تمام احکامات میں اتحاد و وحدت کا پہلو پایا جاتا ہے، نماز دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے، اسلام کہتا ہے اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرو، جب ایک محلے کے لوگ مل کے نماز ادا کریں گے تو ان میں محبت والفت کا رشتہ قائم ہو جائے گا۔ نماز با جماعت کی اتنی زیادہ تاکید کی کہ اگر کوئی شخص نابینا ہے تو بھی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرے، اگرچہ اسے گھر سے مسجد تک رسی ہی کیوں نہ باندھنی پڑے۔ اسلام میں جمعہ کے دن نماز جمعہ کو فرض قرار دیا، جس میں شہر کے بڑے حصے کے مسلمان ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں اور بھائی چارہ کا کا عملی اظہار کرتے ہیں۔
اسی طرح اسلام نے سال میں دو عیدیں قرار دیں، جس میں پورے شہر کے مسلمان عید گاہ میں جمع ہوتے ہیں، یہ بڑا روح پرور منظر ہوتا ہے، تمام تفاریق کو ختم کرکے سب کے سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ رہا نہ بندہ نواز
صاحب استطاعت لوگوں پر زندگی میں ایک بار حج واجب قرار دیا، پوری دنیا کے مسلمان ان کا تعلق مشرق سے ہو یا مغرب سے ہو، وہ عازم مکہ ہوتے ہیں، خانہ خدا کی طرف امڈ آتے ہیں، وہ خانہ خدا جس کے بارے میں آپ (ص) نے فرمایا دین اسلام اس وقت تک قائم رہے گا، جب تک کعبہ قائم ہے، جس طرح شہد کی مکھیاں اپنے چھتے کو ڈھانپ لیتی ہیں، اسی طرح پوری دنیا کے مسلمان کعبہ کو ڈھانپ لیتے ہیں۔
اللہ تعالٰی نے تمام دنیاوی امتیازات کو ختم کر دیا ہے، لباس الگ تشخص کی علامت ہے، حکم دیا اپنے جدا گانہ لباسوں کو اتار دو، فقط سفید رنگ کی دو چادریں زیب تن ہوں، سب لوگ لباس واحد پہن کر خدائی رنگ کو اختیار کرتے ہیں، ایک وجہ امتیاز زبان تھی، اس امتیاز کو لبیک اللھم لبیک کی دلنشین آوازوں نے ختم کر دیا، تمام لوگ سارے اختلافات بھلا کر ایک ملت میں گم ہوگئے، ان کی منشاء فقط رضائے الہی کا حصول ہے۔
حج اسلامی قوت کا عملی مظاہرہ بھی ہے، جب دنیا بھر کے مسلمان مل کر اعمال حج کو انجام دیتے ہیں، ایک امام کے پیچھے نمازیں ادا کرتے ہیں، سب کا رخ ایک ہی قبلہ کی طرف ہوتا ہے، منٰی میں سعی کے وقت شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے، غرض ہر جگہ مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں، سب مل کر عزت احترام کے ساتھ تعاون کے ساتھ تمام اعمال بجا لاتے ہیں، اس سے اسلام کی عظمت کا بول بالا ہوتا ہے۔ اعمال حج حاجی کے لیے عملی تربیت گاہ کا درجہ رکھتے ہیں، مخصوص لباس پہن کر سب لوگ ایک طرح کے الفاظ ادا کر رہے ہوتے ہیں، جس سے تمام ظاہری امتیازات کا خاتمہ ہو جاتا ہے حاجی امت مسلمہ کا ایک فرد بن جاتا ہے، اس کی پہچان فقط اور فقط اسلام ہوتا ہے۔
حضرت علی ؑ فرماتے ہیں کہ اللہ نے حج کو دین کی تقویت کا ذریعہ قرار دیا ہے، امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں کہ اللہ نے حج میں اجتماع قرار دیا، تاکہ مشرق و مغرب کے لوگ ایک دوسرے کو پہچانیں، اگر ان فرامین پر غور کیا جائے تو حج کا معاشی، سیاسی اور معاشرتی پہلو بھی سامنے آتے ہیں، جب تمام دنیا کے مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ مسلمانوں کو درپیش مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں، ان کا حل تلاش کرتے ہیں، مسلمانوں کی بہتری کے منصوبے بنائے جاتے ہیں، غریب مسلمانوں کی مدد کی حکمت عملی تیار کی جاتی ہے۔
اسلام کا پیغام پوری دنیا تک پہچانے کا عزم کرتے ہیں، یہ تمام باتیں حج حقیقی کے لوازم میں سے ہیں، تمام حجاج شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہیں، اس سے استعمار اور طاغوت کے خلاف لڑنے کی تربیت ملتی ہے، تمام اعمال کو خاص معین وقت میں انجام دینا ضروری ہوتا ہے، اس سے وقت کی پابندی کا درس ملتا ہے، جب انسان اللہ کی راہ میں قربانی دے رہا ہوتا ہے تو اسے اسلام و مسلمانوں کے لیے اپنی جان و مال قربان کرنے کا جذبہ ملتا ہے، وہ اس بات کے لیے تیار رہتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لیے جب بھی اس سے قربانی مانگی گئی تو وہ اس سے دریغ نہیں کرے گا۔
حج کر لینا اسلامی معاشرے میں ایک عہدے کی حیثیت رکھتا ہے، اسی لیے حج کرنے والے کو حاجی کہتے ہیں، معاشرے میں اسے خاص عزت و احترام سے نوازا جاتا ہے، اس کی بات کو معتبر سمجھا جاتا ہے، حج انجام دینے والے شخص نے اگر وہ تبدیلیاں پیدا کرلی ہیں جو حج سے مطلوب و مقصود ہیں تو حج واقعاً ایک بڑے اسلامی منصب کا نام ہے، حج سے پہلے اور بعد والی زندگی میں واضح فرق ہونا چاہیے، حج سے پہلے انسانیت میں تفریق کا قائل تھا، اب اس تفریق کو ختم کر چکا ہو، حج سے پہلے ظالم تھا، اب ظالم کا دشمن ہو، پہلے کنجوس تھا تو اب سخی ہو، پہلے بداخلاق تھا تو اب صاحب اخلاق ہو، پہلے فرقہ بندی کی جہالت میں گرفتار تھا تو اب وحدت امت کا علمبر دار ہو۔
اگر انسان میں یہ تبدیلیاں آچکی ہیں تو اس نے صحیح معنوں میں حج انجام دیا ہے۔ پورے اعمال حج اتحاد و وحدت کی علامت ہیں، نفرتوں کے خاتمے کا نشان ہیں، محبتوں کے سائبان ہیں، نبی مکرمﷺ کا آخری خطبہ حج بھی اسی کی طرف رہنمائی کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو تمہارا پروردگار ایک، تمہارا باپ ایک ہے، تم سب فرزندان آدم (ع) ہو، اور آدم (ع) خاک سے تھے، عرب کو عجم پر کوئی فضیلت نہیں ہے مگر تقویٰ کی، خدا ہمیں ایسا حج نصیب کرے، جیسا حج وہ چاہتا ہے۔ آمین۔