خون کا عطیہ دیکر زندگی بچانا عبادت ہے,کشمیر کے شبیر حسین خان نے 1980ء سے اب تک خون کے 155پوائنٹ عطیہ کئے

’’میں خون کا عطیہ لوگوں کی جان بچانے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کرتا ہوں۔اسلام ہمیں کچھ اعمال کی تشہیر کرنے کی تاکید کرتا ہے تاکہ دوسرے متاثر ہوکربھی انجام دیں ۔خون کے عطیہ کے وقت صرف ’’ریفرشمنٹ‘‘بطور غذا ملتی ہے مگر اسکے باؤجود بھی خون عطیہ کرنے میں ایک الگ ہی لطف و روح کو سکون میسر ہوتا ہے۔ایام عزاء کے دورا ن جوافراد اب بھی خونی ماتم انجام دیتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنا قیمتی خون کسی بیمار کو عطیہ دیں کیونکہ ولی فقیہ حضرت امام خامنہ ای اور مراجع اعظام کے فتاوے کے مطابق خونی ماتم کو منع قرار دیاگیا ہے اور حسینیت کی بہترین خدمت یہی ہے۔انہوں نے مسلمانوں اور مومنین سے اپیل کی کہ ماہ محرم میں خون عطیہ کرنے کی تحریک کو مزید مضبوط اور عام کرنے کی
ضرورت ہے۔

وسیم رضا کشمیری

خون انسانی جسم کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنی اس کے لئے آکسیجن۔جسم میں خون کا بہاؤ ہی زندگی کی علامت ہے۔یوں تو انسانی جسم کے بہت سے ایسے اعضاء ہیں جن کا انسان کسی دوسرے کو عطیہ دے سکتا ہے لیکن خون اپنا ایک الگ نایاب اور منفرد مقام رکھتا ہے۔ خون کا عطیہ کرنا سب سے آسان عمل ہے بہ نسبت دوسرے اعضاء کے۔خون کا عطیہ دینے والے کے چند منٹ کسی کو پوری زندگی کا وقت دے سکتے ہیں کیونکہ خون ایک انسان کے لئے دنیا میں سب سے قیمتی چیز ہے۔ تحقیق سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہر انسان کے جسم میں دو یا تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے۔جیسا کہ آپ نے بھی اکثر دیکھا ہو گا کہ ایک آدمی ایک ہی وقت میں خون کی دو بوتلیں آسانی سے عطیہ دے پاتا ہے اور طبی لحاظ سے اس کی صحت پر کوئی منفی اثر بھی نہیں پڑتا۔بلکہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر انسان کو چند ماہ بعد خون دیتے رہنا چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے انسان کا نیاتازہ خون بنتا ہے۔اور اس وجہ سے وہ بہت سی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
قومی و بین الاقوامی سطح پر خون کا عطیہ دینے والے سینکڑوں افراد موجودہونگے ہی جنہوں نے ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے اوران کی عالمی سطح پر حوصلہ افزای و شکریہ ادا کیا جاتا ہے ۔
ریاست جموں و کشمیر کے گرمایہ دارالحکومت سرینگر کے پائین شہر میں واقعہ کمانگرپور زڈی بل راجوری کدل سے تعلق رکھنے والے شبیر حسین خان گذشتہ 37سال سے خون کا عطیہ کرتے آئے ہیں اور ماہ اگست 2017ء تک انہوں نے 155سے زائد پوائنٹ خون کا عطیہ دیکر سینکڑوں افراد کی جان بچائی ہے۔شبیر حسین خان نے خون کا عطیہ سب سے پہلے سال 1980ء میں کیا جب انکی عمرصرف 13سال تھی اور اب وہ وادی میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور’’بلڈ مین‘‘کے نام سے مشہور ہیں کیونکہ 1980سے لیکر 2017تک وہ 155پوائنٹ خون کا عطیہ دینے والے بن چکے ہیں ۔شبیرحسین نے کہا کہ ’’میں پچھلے37سالوں سے خون کا عطیہ کرتے آرہا ہوں اور کسی قسم کی کوئی کمزوری محسوس نہیں ہوتی جبکہ میں نے آج تک بلا لحاظ مسلک و مذہب لوگوں کی خدمت کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے کہاکہ خون دینا عبادت ہے اور ہمیں اس عمل کو ایک تحریک کی شکل دینی چاہیے۔نئی دلی، تامل ناڈو ، آندھرا پردیش اور جموں میں خون کا عطیہ دینے والے شبیر حسین نے 2004میں بھارت کے سونامی زدہ علاقوں میں دو ماہ تک خون کے عطیہ کیلئے مہم چلائی اور لوگوں کی جان بچانے کیلئے خون جمع کیاتاہم وادی میں مختلف سرکاری تنظیموں کی طرف سے خون کا عطیہ کرنے والے چند رضاکاروں کے تئیں رویے سے شبیر اور دیگر رضاکار بہت نالاں ہیں۔ شبیرحسین نے بتایا کہ میں خون کا عطیہ لوگوں کی جان بچانے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کرتا ہوں۔اسلام ہمیں کچھ اعمال کی تشہیر کرنے کی تاکید کرتا ہے تاکہ دوسرے متاثر ہوکربھی انجام دیں ۔شبیر حسین خان نے کہا کہ خون کے عطیہ کے وقت عالمی ریڈکراس تنظیم یا بلڈ بنکوں کی جانب سے صرف ’’ریفرشمنٹ‘‘بطور غذا ملتی ہے مگر اسکے باؤجود بھی خون عطیہ کرنے میں ایک الگ ہی لطف و روح کو سکون میسر ہوتا ہے ۔کشمیر کے بلڈ مین نے کہاکہ ایام عزاء کے دوران جوافراد اب بھی خونی ماتم انجام دیتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنا قیمتی خون کسی بیمار کو عطیہ دیں کیونکہ ولی فقیہ حضرت امام خامنہ ای اور مراجع اعظام کے فتاوے کے مطابق خونی ماتم کو منع قرار دیاگیا ہے اور حسینیت کی بہترین خدمت یہی ہے۔انہوں نے مسلمانوں اور مومنین سے اپیل کی کہ ماہ محرم میں خون عطیہ کرنے کی تحریک کو مزید مضبوط اور عام کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ سال 1998میں Mother Tersaنے شبیر حسین خان کو کولکتہ دعوت دیکر انسانی جانوں کو بچانے کے انکے مقصد کی زبردست سراہنا کی تھی۔ شبیر حسین نے آخر پرزور دیکر کہا کہ ہمیں سرکار کی نوکری یا مالی معاونت نہیں چاہئے بس اس ثقافت کو ہمیں عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانیت کے حقیقی پیغام غلبہ پا سکے۔