تہران/رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شہداء کے اہل خانہ من جملہ ہفتم تیر ۱۳۶۰ یعنی 28 جون 1981 کے شہداء اور شہدائے مدافعان حرم کے اہل خانہ سے ملاقات میں شہداء کے عظیم ایمان، جہاد، جرات و بہادری اور اعلیٰ معرفت اور شہیدوں کے اہل خانہ کے صبر و استقامت کو اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کے قدرت اور طاقت قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت کی تنہا راہ انقلابی جذبے کا احیاء اور جہاد میں مضمر ہے۔
آپ نے اپنی گفتگو کی ابتداء میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت کے ایام پر تعزیت پیش کرتے ہوئے امام عالی مقام کو تاریخ بشریت کا بزرگ ترین شہید، شہید محراب و راہ حق و استقامت قرار دیا اور حزب جمہوری اسلامی کے دفتر میں ہفتم تیر ۱۳۶۰ یعنی 28 جون 1981 کو ہونے والے دھماکے کے واقعے کے پینتیس سال مکمل ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس جرم کے ذمہ دار وہ خبیث اور بے رحم دہشتگرد گروہ ہیں، جو ملک سے فرار ہونے کے بعد کئی سالوں سے امریکہ اور ان یورپی ممالک میں پناہ لئے ہوئے ہیں کہ جو دہشتگردی کی مخالفت اور انسانی حقوق کی حمایت کا دم بھرتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس موضوع کو امریکہ اور یورپی ممالک کی عظیم اور تاریخی رسوائی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ دہشتگرد گروہ ہیں کہ جنہوں نے خلق کے دفاع حتی اسلام کے دفاع کے دعوے کے ساتھ جدوجہد کا آغاز کیا لیکن آگے چل کر انہوں نے ہفتم تیر جیسے اندوہناک واقعات اور عام شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم کا ارتکاب کیا اور بالآخر صدام جیسے انسان سے جا ملے اور آج بھی امریکی حمایت کے سائے میں موجود ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے 28 جون 1981 کے حادثے کو درس اور عبرت پر مشتمل ایک عظیم حادثہ قرار دیا اور نئی نسل کو اسلامی انقلاب کے اہم حادثات و واقعات اور شہداء سے روشناس کروائے جانے کے سلسلے میں عدم توجہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس حادثے کو پینتیس سال گذرنے کے باوجود ابھی تک کوئی فلم کوئی ڈاکیومنٹری حتی کوئی ناول بھی ہفتم تیر، شہید بہشتی اور اس حادثے کے شہداء کے بارے میں موجود نہیں ہے اور اگر یہ حادثہ ابھی تک زندہ ہے تو وہ بھی صرف عوام کے انقلابی جذبے کی وجہ سے ہے۔
آپ نے مقدس دفاع کے آپریشنز اور شہداء کے بارے میں موجود بعض کتابوں کے لکھے جانے اور تمام افراد خاص طور پر نوجوانوں کو ان کتابوں کے توجہ کے ساتھ مطالعے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگرچہ اس سلسلے میں بہت زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن ابھی بھی مقدس دفاع اور اس جنگ کے عظیم شہداء کے بارے میں مختلف زاویوں سے کتابیں لکھے جانے کا زمینہ موجود ہے، کیونکہ ایک ایک شہید کا کردار، گفتار اور اس کی سیرت ایک دنیائے معرفت کی جانب کھلنے والا دریچہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے عوامی رضاکاروں کی موجودگی اور جنگ کے رسمی فوج پر انحصار سے باہر نکل جانے کو مقدس دفاع کے زمانے کی ایک خصوصیت قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ آج بھی حکومتی عہدیداروں کو ہماری یہی نصیحت ہے کہ مختلف میدانوں میں خاص طور پر اقتصاد کے میدان میں عوام کی توانائیوں سے استفادہ کیا جانا چاہئے اور اقتصاد کو عوامی ہونا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے حریم اہل بیت علیہم السلام کے دفاع اور شہدائے مدافع حرم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ موضوع تاریخ کے حیرت انگیز اور اعجاب آور موضوع کے بارے میں ہے کہ ایران اور دنیا کے دوسرے ممالک سے آئے ہوئے جوان اپنے ایمان اور مضبوط ارادے کی وجہ سے اپنی بیگمات اور بچوں اور اپنی پر آسائش زندگی سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک انجانے ملک میں خدا کی راہ میں جہاد کیا اور اسی راہ میں شہادت حاصل کی۔
آپ نے شہیدان مدافع حرم کے عظیم ایمان اور انکے اہل خانہ کے صبر اور بردباری کو اس اعجاب آور موضوع کے دوسرے پہلووں میں سے قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس ماجرا کا ایک اور پہلو اسلامی جمہوریہ ایران کی قدرت وطاقت، ایمان اور مومن مجاہد اور شہداء کے عزم و ارادے پر استوار ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی نظام کے دشمن کبھی بھی اس نظام کی توانائی اور اقتدار کی بنیادوں کو سمجھنے اور درک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے فرمایا کہ شہداء اور انکے اہل خانہ اسلامی جمہوری نظام کے مضبوط ستون ہیں اور اسی وجہ سے یہ نظام گوناگوں سازشوں پر غلبہ پانے میں کامیاب ہوا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ ہم نے جہاں بھی انقلاب اور انقلابی جذبے پر تکیہ کیا، وہاں ترقی کی ہے اور جہاں پر استکباری عناصر کی خاطر اپنے اقدار سے صرف نظر کیا ہے اور انقلابی مواقف کو بیان کرنے میں تکلف سے کام لیا وہاں پر عقب ماندگی کا شکار ہوئے اور نقصان اٹھایا ہے۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ مستکبر دشمنوں کے ساتھ انقلابی رویہ اپنانا چاہئے، فرمایا کہ خدا پر ایمان، عقیدہ جہاد اور مومن اور انقلابی جوانوں کے مضبوط ارادے، استکبار کے ساتھ نا منظم جنگ میں اسلامی نظام کی قدرت وطاقت کا سرمایہ ہے اور وہ لوگ باوجود اس کے کہ اس سرمایہ قدرت کے آثار کا مشاہدہ کر رہے ہیں لیکن اسکی تحلیل کرنے سے عاجز ہیں بنا بر ایں وہ بے رحمانہ اور شدت پسندی پر مبنی طریقہ کار اپنا رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے داعش جیسے تکفیری دہشتگرد گروہوں کو وجود میں لانے کو اسلامی نظام کے مقابلے میں شدت پسند رویے کی واضح مثال قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ان تکفیری دہشتگرد گروہوں کو وجود میں لانے اور عراق اور شام میں ان کے اقدامات کا اصل مقصد ایران پر حملہ کرنا تھا لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی قدرت و طاقت اس بات کا سبب بنی کہ وہ عراق اور شام میں ہی زمین گیر ہوجائیں۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ تکفیری دہشتگرد گروہ شیعہ اور سنی کے درمیان فرق کے قائل نہیں ہیں فرمایا کہ جو مسلمان شخص بھی اسلامی انقلاب کے ہمراہ اور امریکہ کا دشمن ہوگا وہ اسے اپنا ہدف بنائیں گے۔ آپ نے بحرین کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بحرین میں بھی مسئلہ شیعہ یا سنی کا نہیں ہے بلکہ اصل ماجرا وہاں کی اکثریت پر ایک مستکبر اقلیت کی خودخواہ اور جابرانہ حکمرانی کا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بحرینی حکومت کی شیخ عیسی قاسم کے خلاف جارحانہ کارروائی کو انکی حماقت قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ شیخ عیسی قاسم ایسے شخص ہیں کہ جب تک وہ بحرینی عوام سے بات چیت کر سکتے تھے انہیں شدت پسندی اور مسلح کارروائیوں سے روکتے رہے لیکن بحرینی حکومت کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ اس مجاہد عالم دین کے خلاف جارحانہ کارروائی کا مطلب حکومت کے ہر عمل کے مقابلے میں اقدامات انجام دینے کے سلسلے میں بحرین کے حماسی اور پرجوش نوجوانوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ استکباری طاقتیں اور انکے پٹھو ہمیشہ عوام کی شناخت اور معاشرے میں ایمان سے ہراساں ہیں اور غلط حساب کتاب کا شکار رہتے ہیں فرمایا کہ صحیح راستہ، اسلام کی راہ پر چلنا اور خداوند متعال پر توکل کرنا ہے اور صرف با ایمان، مجاہد اور عزم راسخ رکھنے والی ملت ہی مشکلات پر غلبہ حاصل کرکے آگے بڑھ سکتی ہے۔
آپ نے تمام افراد کو شب ہائے قدر اور ماہ مبارک رمضان کے آخری بابرکت ایام سے پہلے سے زیادہ بہرہ مند ہونے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان راتوں اور سحر کے اوقات کہ جو توسل اور تضرع کے اوقات ہیں، ہمیں چاہئے کہ عالی رتبہ ارواح من جملہ شہداء کی ارواح سے مدد طلب کرتے ہوئے، انہیں اپنا شفیع قرار دیتے ہوئے اور حضور قلب کے ساتھ اس انداز میں دعا کریں کہ خداوند متعال کی توجہ اور عنایات کا سبب بن سکیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے نمائندہ ولی فقیہہ اور شہید فائونڈیشن کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین شہیدی محلاتی نے جوان نسل کو مجاہدین کے ایثار و قربانی اور انکے حماسہ سے آشنا کرنے کا ذکر کرتے ہوئے شہید فائونڈیشن کے بنیادی اور اہم امور کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔