دربار شام میں جناب زینب کبری سلام اللہ علیھا کا خطبہ

جناب زینب سلام اللہ علیھا کی عظمت کیلئے اتنا  کافی ہے کہ آپ سید المرسلین اور  ملیکہ العرب حضرت خدیجہ ع کی نواسی،  محسن اسلام حضرت ابوطالب ع اور فاطمہ بنت اسد کی پوتی ، سید الاولین علی المرتضی ع اور سید النساء العالمین کی بیٹی  اور اسی طرح جوانان جنت امام حسن ع اور امام حسین علیہ السلام کی بہن تھیں  ۔

تحریر:نصرت عباس

بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم

سب تعریفیں اس خدا کیلئے ہیں  جو عالمین کا پروردگار  ہے اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ والہ وسلم اور انکی پاکیزہ عترت و اہل بیت عليھم السلام پر

خداوند عالم کا یہ ارشاد  حق و صداقت پر مبنی  ہے کہ : آخر کار جن لوگوں نے برائیاں کی تھیں  ان کا انجام بھی بہت برا ھوا اسلئے کہ اُنہوں نے اللہ کی نشانیوں کو جھٹلایا اور وہ انکی ہنسی اڑاتے تھے ،

اے یزید ! کیا تو سمجھتا ہے کہ  ہمیں قید  کرکے تو نےہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کرائے ہیں  ؟

اور آل رسول کو رسیوں  اور زنجیروں میں  جکڑ کر در بدر  پھرانے  سے تو خدا کی بارگاہ میں  سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں ؟

یہ سوچ کر تو پھولے نہیں سما رہا ہے کہ تیری مستبدانہ حکومت  کی حدیں بہت پھیل چکی ہیں اور تیری سلطنت کی نوکر شاہی بڑی مضبوط  ہے ،

کیا تو دنیا کو آباد اور اپنی مرضی کے مطابق مانتا ہے ؟ اور کیا تو سمجھا ہے کہ دنیا کے تمام امور تیری مرضی و منشاء  کے مطابق انجام پاتے ہیں؟

ٹھہر یزید ٹھہر!

کیا تو فرمان خدائے بزرگ و بالا کو بھول گیا ہے جبکہ وہ فرماتا ہے  :جو لوگ کفر و بے دینی کے میدان میں قدم رکھنے ہیں  یہ گمان نہ کریں کہ جو مہلت ہم نے انہیں دی ہے  وہ ان کے فائدے میں  یے ،

بلکہ ہم نے اسلئے مہلت دی ہے کہ انہیں اپنے گناہوں میں اضافہ  کی فرصت زیادہ ملے اور ذلیل کرنے والا عذاب انکے لئے مہیا  یے ،

اے ہمارے آذاد کئے ہوئے لوگوں کی اولاد  !  کیا یہ انصاف ہے کہ تم نے اپنی عورتوں  اور کنیزوں  تک کو پس پردہ بٹھا کر رکھا ہے لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیٹیوں  کو سر برہنہ نا محرموں کے درمیان قیدی بنا کر رکھا ہے  ،

انکے پردہ حرمت کو تو نے پارہ پارہ  کردیا ہے ان کے چہروں  اور صورتوں  کو بے پردہ کردیا ہے یہاں تک کہ دشمنان خدا ان کو دیکھتے ہیں

انہیں تو نے شہر بہ شہر پھرایا ہے حتی کہ شہروں اور دیہاتوں کے باشندے  انکو دیکھتے ہیں اور دور و نزدیک  کے لوگوں  نے انہیں تماشا بنا کر رکھا ہے ، جہاں کے ذلیل و شریف لوگ ان کی طرف اپنی آنکھیں کھولتے ہیں،

ان کی کیفیت یہ ہے کہ انکے مرد انکی  سرپرستی  کیلئے موجود نہیں ہیں نہ وہ سرپرست اور حمایتی رکھتے ہیں۔ البتہ ایسے شخص کی طرف سے کیسے عطف و مہربانی کی توقع کی جا سکتی ہے جو ان کی اولاد ہو جنہوں نےاسلام کے پاکیزہ شہیدوں  کے جگر کو چبانا پسند کیا ہو ؟

ایسے شخص سے کس طرح  مہربانی کی توقع رکھی جا سکتی ہےجس کا گوشت شہداء کے خون سے بنا ہو ؟  پھر وہ شخص کس طرح اہلبیت علیھم سلام کے ساتھ اپنے بغض و کینہ میں کمی کر سکتا ہے جس نے ہمیشہ ہم پر بغض و نفرت کی نظر ڈالیں اور اپنی پوری زندگی اس کینہ  و انتقام کی آنکھ کھلی رکھی ہو ؟

اور وہ اپنے احساس گناہ کے بجائے ڈھٹائی  سے کہتا جارہا ہے کہ کاش میرے آباؤ و اجداد میری اس شادمانی اور خوشحالی کو دیکھتے تو کہتے آے یزید  ! تیرے دست و بازو کو نظر نہ لگے تو نے محمد و آل محمد  کے گھرانے سے کیا خوب انتقام لیا !

تو جو کچھ کر رہا ہے اور جو کچھ  کہتا چلا جا رہا ہے وہ تیری اندرونی کیفیت کا اظہار ہے  ! ذرا دیکھ تو سہی بے ادب ! اپنی چھڑی سے جس ہستی کے  مقدس ہونٹوں کے ساتھ گستاخی کر رہا ہے وہ جوانان جنت کے سردار ہے !

تم نے محمد ص کے پیاروں اور عبدالمطلب  کے تاروں  کا خون بہا کر ہمارے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے کئے تو اپنے گڑھے ہوئے مردوں کو آواز دے رہا ہےاور تمہیں کیا لگتا ہے وہ تمہاری آواز سن لینگے ؟

(جلدی مت کر ) عنقریب تو خود بھی اسی گھاٹ  اترنے والا یے جہاں وہ ہیں  اور تب تو آرزو کریگا کہ کآش میرے ھاتھ مفلوج  اور میری زبان گونگی ہوتی تاکہ جو کچھ میں نے کہا وہ نہ کہہ پاتا اور جو کچھ میں نے کیا وہ نہ کرتا !

پروردگار  ! ان لوگوں سے ہمارے حق کو وصول فرما ، ان ظالموں  سے ہمارا انتقام  لے اپنے غیض  و غضب کو ان پر وارد فرما جنہوں ناحق ہمارا  خون بہایا اور ہمارے حامیوں کو قتل کیا ،

خدا کی قسم  ! اپنے اس عظیم گناہ  سے تو نے صرف اپنے گوشت کو پارہ پارہ کیا ہے اور اسکے سوا کچھ نہیں کہ تو نے خود اپنے بدن کے گوشت  کے ٹکڑے ٹکڑے کئے ہیں بہت جلد تو پروردگار کے حکم سے رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے وارد ہوگا  جبکہ انکی ذریت کا خون تیری گردن پر ہوگا ۔

انکی عترت کی ہتک حرمت کا گناہ اور ان کے گوشت و پوست کا عذاب تو اپنی گردن پر رکھتا ہوگا  ، یہ وہ دن ھوگا جب اللہ نے اپنے نبی اور انکے خاندان کو اپنے ساتھ  جمع رکھا ہوگا ان کے بکھرے ہوئے افراد کو اس نے اپنے سامنے جمع رکھا ہوگا ۔

اور انکے حق کو انکے دشمنوں  سے طلب فرمائے گا ، اللہ فرماتا ہےاور ان لوگوں کو مردہ نہ جانو جو اللہ کی راہ میں شھید ہوئے ہوں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق حاصل کرتے ہیں۔

پس اے یزید  ! یہ تیرے لئے کافی یے کہ تو قیامت  کے دن اللہ تعالٰی کے سامنے جوابدہ ہوگا اور حضرت محمد ص تیرے خلاف دعوی کریں گے  اور جبرئیل ان کے گواہ اور مددگار ہوں گے ۔

اور بہت جلد ایسا ہوگا کہ جن لوگوں نے مکر و فریب کرکے تجھے مسند اقتدار پر بٹھایا  اور اللہ اور رسول ص کا کلمہ پڑھنے والوں کی گردنوں  پر مسلط کردیا ، اپنے کئے پر جوابدہ ہوں گے تجھے معلوم ہو جائے گا کہ کون مجبور اور شکست خوردہ ہے ۔

اے یزید  ! یہ تو زمانے کا انقلاب ہے کہ تجھ جیسے بد نہاد سے مخاطب ہونا پڑا ۔ تجھے تو میں  بہت  چھوٹا اور بے وقعت سمجھتی ہوں  ، البتہ تیری سرزش کو بڑا کام اور تیری کثرت سے ملامت کرتی ہوں  ۔ ھاں تجھ سے مخاطب ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ آنکھیں  گریہ کناں ہیں اور ہمارے قلوب ہمارے عزیزوں کے مرگ کے غم میں جل رہے ہیں۔

کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ اللہ تعالٰی کی پاک و نجیب جماعت کو (فتح مکہ کے دن ) ہمارے آباد کئے ہوئے شیطان صفت گروہ نے تہ تیغ کیا ۔

تم لوگوں کے پنجوں سے ابھی بھی ہمارا خون ٹپک رہا ہے اور آج بھی انکے لب و دندان پر ہمارا  گوشت چبانے کے نشان موجود ہیں  ۔

وہ پاک جسم جو ٹکڑے ٹکڑے اور بے سر ہیں آندھیوں اور طوفان میں  خاک میں پڑے ہیں  ، تم وحشی بھیڑیے لگاتار ان پاک اجسام کے پیچھے آتے ہوئے بیاباں میں انہیں پڑا ھوا دیکھتے ھو ۔

اے یزید  ! اگر  آج ہمیں جنگی بنا کر تو سمجھ رہا ہے کہ کچھ حاصل کرلیا ہے تو تجھے جاننا چاہتے کہ اس کے عوض تجھے بہت بڑی سزا تاوان ادا کرنا ھوگا اور جب سوائے اس چیز کے تو نے پہلے سے جمع رکھی ھوگی کچھ اور تیرے پاس نہ ہوگا ۔

( یہ اس شیر دل خاتون کے الفاظ تھے جو شیر خدا کا جلال رکھتی تھی  ان کے دلیرانہ خطبہ سے دربار یزید میں  ارتعاش پیدا ھوا ، صاحب دربار کو لگ رہا تھا کہ علی علیہ السلام حاضر دربار ہیں )

آپ نے مزید فرمایا  :

اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتا ، میں تیرے ظلم کی اللہ سے شکایت کرتی ھوں اور اسی سے پناہ و سرپرستی کی ظامن  ہوں ۔ اے یزید  !  ہماری دشمنی میں جس قدر تجھ سے کوشش ممکن ہو کر گزر ، اپنے تمام طریق و خواہشات کو استعمال کرلے ۔

خدا کی قسم ہمارے ناموں  کو ذہنوں اور صفحات تاریخ سے محو نہ کرسکے گا نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ہمارے چراغ  وحی کو خاموش کرسکے گا اور نہ ہمارے طویل حیات اور ہمارے افتخار کو ختم کر سکے گا ، اور نہ یہ ممکن ہے کہ اپنے دامن مستقبل و دوامی ننگ و عار کے دھبوں کو مٹا سکے ۔

کیا اس میں  بھی کوئی شک و شبہ باقی ہے کہ تیری رائے اور  عقل  ضعیف  و بچگانہ ، تیری زندگی کے ایام گنے جا چکے ہیں اور تیرے گرد جو تیری جماعت ہے  وہ پراگندہ  ہونے والی ہے ۔

اس دن کو یاد رکھ جب  ندا دینے والا ندا دیگا کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو  ۔

پس تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے ہمارے بزرگوں کو انجام کار خیر  و سعادت  کے خزانے سے افتخار بخشا اور ہماری آخری شخصیتوں  کو شہادت  و رحمت سے سرفراز فرمایا ۔

ہم اللہ ہی سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنی رحمت  و رافت کی ان پر تکمیل فرمائے اور خلافت کو جو ہمارا حق ہے ہمارے لئے قرار دے وہ خدائے رحیم ہے اور اپنے دوستوں کی پناہ گاہ ہے اللہ ہماری حمایت کیلئے کافی ہے اور وہ بہترین  کارساز ہے ۔

جناب زینب سلام اللہ علیھا کی عظمت کیلئے اتنا  کافی ہے کہ آپ سید المرسلین اور  ملیکہ العرب حضرت خدیجہ ع کی نواسی،  محسن اسلام حضرت ابوطالب ع اور فاطمہ بنت اسد کی پوتی ، سید الاولین علی المرتضی ع اور سید النساء العالمین کی بیٹی  اور اسی طرح جوانان جنت امام حسن ع اور امام حسین علیہ السلام کی بہن تھیں  ۔

چنانچہ مشہور ہے کہ برتن سے وہی چیز ٹپکتی ہےجو انکے اندر ہوتی ہے غرض یہ کہ نانا نانی، دادا دادی ، ماں باپ اور بھائیوں کے جمیع کمالات کا نام زینب علیہ السلام  ہے۔(ولایت ٹائمز نیوز سرویس)