دشمن کا ہدف اسلامی نظام کے اقتدار کے داخلی عناصر کا خاتمہ ہے؛استقامت عظیم جہاد:رہبر معظم

تہران/رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مجلس خبرگان کے پانچویں دور کے نو منتخب سربراہ اور اراکین سے ملاقات میں اس مجلس کو ایک عظیم ادارہ قرار دیا اور اس کی انقلابی شناخت اور راستے کی وضاحت کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اسلامی نظام کی بقا و پیشرفت اور انقلاب کے اہداف کی تکمیل کا واحد راستہ ملک کا حقیقی معنی میں مقتدر ہونا اور جہاد کبیر یعنی دشمن کی اطاعت نہ کرنا ہے۔ آپ نے انتخابات کے بہترین انعقاد، عوام کی جانب سے زبردست پذیرائی اور مقتدر اور باوقار کونسل کی تشکیل پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ مجلس خبرگان پروردگار کی نعمت ہے اور حتی یہ کہ آئین میں بیان شدہ اپنے فرائض کے علاوہ بھی یہ ادارہ بہت عظیم اور بے حد موثر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عوام کی جانب سے انتخاب شدہ اور انکے لئے قابل اعتماد علما و اہل نظر افراد کو بذات خود بہت اہمیت کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ یہ برجستہ اور عالی رتبہ ادارہ تبادلہ خیال، ہم آہنگی اور موثر سرگرمیوں کی عظیم صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ آپ نے مختلف مسائل کے بارے میں غور و فکر، مطلوبہ مسائل پر توجہ، موقف اور مطالبات کا اعلان اور عمومی تقاضوں اور رائے عامہ کو صحیح سمت دینے کو مجلس خبرگان کے اراکین کی صلاحیتیں قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ ہدف پورا ہونے کی صورت میں مختلف محکمے اور عہدیداران اور ذمہ دار افراد فطری طور پر ان مطالبات کی تکمیل کے لئے عملی اقدامات کریں گے۔رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ مجلس خبرگان کی روش اور مقاصد، انقلاب کی روش اور مقاصد ہی ہونے چاہئیں۔آپ نے فرمایا کہ اسلام کی حکمرانی، آزادی، خود مختاری، اجتماعی عدل و عدالت، رفاہ عامہ، غربت و جہالت کی بیخ کنی، مغرب میں جاری اخلاقی، اقتصادی، اجتماعی اور سیاسی بدعنوانیوں کے تباہ کن سیلاب کے مقابلے میں استقامت اور استکباری محاذ کی توسیع پسندی کے مقابلے میں استقامت ملت ایران کے اسلامی انقلاب کے اہم ترین مقاصد ہیں۔ آپ نے تسلط پسندی کو استکبار کی سرشت اور فطرت کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ استکباری محاذ کی ماہیت ہی یہ ہے کہ وہ قوموں پر اپنا تسلط قائم کرے اور جو قوم اور ملک بھی استقامت نہیں دکھاتا وہ اس کے جال میں پھنس جاتا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلام کو بغیر کسی شک و شبہہ کے، ظلم و استکبار کا قلع قمع کرنے والی قوت قرار دیا اور فرمایا کہ البتہ وہی اسلام عالمی تسلط پسند طاقتوں اور توسیع پسند محاذ کا مقابلہ کر سکتا ہے جو حکومتی نظام کی شکل میں اپنے پاؤں جما چکا ہو اور اس کے پاس عسکری، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور تشہیراتی طاقت ہو۔آپ نے انقلاب کی حفاظت کو انقلاب لانے سے زیادہ دشوار کام قرار دیا اور ظالموں کے عالمی محاذ سے صحیح مقابلے کی روش کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کے دشمنوں نے پہلے تو عسکری حملے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا، مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ، انقلاب کے ابتدائی ایام میں شورشیں، دہشت گرد تنظیموں کی حمایت، ایران میں تیل کے پلیٹ فارموں پر حملے اور مسافر بردار طیارے کو مار گرانا، عسکری اقدامات کے نمونے تھے جو اللہ تعالی کی مدد و نصرت، امام خمینیؒ کی الہی ہیبت اور ملت کے صبر و استقامت سے دشمنوں کی ناکامی پر منتج ہوئے۔