دنیا عدل پسندوں سے کبھی خالی نہ ہوگی، اگرچہ یہ ظلم سے بھر ہی کیوں نہ جائے۔ سائنس کی جدید ترین ایجاد انٹرنیٹ پر موضوع کی تلاش میں تھا کہ ایک جگہ گھنٹوں ٹھہرا رہا۔ حیرت ہوتی ہے اس بات پر کہ عالمِ اسلام کے کئی سرخیل اور مقدس ممالک یا تو اپنی بقا کے لئے یورپی یونین کی طرف دیکھ رہے ہیں یا امریکہ کی طرف یا پھر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو، تقدیس والوں کا اس بات پر بھی زور ہے کہ جو ان کے ریاستی مذہب کا منکر ہے، وہ دائرہ اسلام سے خارج یا کم از کم ایسا گناہ گار ہے جسے جنت نصیب نہ ہوگی۔ مسلمان آپس میں ہی اس قدر دست و گریبان ہیں کہ انھیں اپنے ہی بھائی بندوں کی مظلومیت کا خیال نہیں بلکہ ان کی ساری توجہ ایک دوسرے کے قتال پر ہے۔ مسلمان سارے ممالک اگر یکجان ہو جائیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کرسکے؟ ساری مسلم دنیا ایک طرف اگر سارے عرب ممالک ہی یکجا ہو جائیں تو اسرائیل کے لئے ممکن نہیں کہ وہ فلسطینیوں پر ظلم کرے، لیکن اے کاش سارے مسلمان ظالم قوتوں کے خلاف یکجان ہوسکیں۔ ظلم بہرحال ظلم ہی ہوتا ہے اور حریت کیش ظلم اور ظالم طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہو جایا کرتے ہیں۔
ریوچی ہیروکاوا جاپان کا ایک صحافی ایسا ہے، جسے اپنی روح کی تسکین کا سامان مظلوموں کی حمایت میں آواز بلند کرکے ملتا ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق’’72 سالہ ہیروکاوا نے اپنی زندگی کے 50 سال فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت میں کتابیں لکھتے اور اسرائیلی مظالم کو بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص جاپان میں اجاگر کرنے میں صرف کر دیئے ہیں۔ جاپان کیا کسی دوسرے ملک میں بھی یروچی ہیروکاوا جیسی مساعی کم ہی کسی نے کی ہوں گی۔ ہیروکاوا کا کہنا ہے کہ انہوں نے 1966ء میں پہلی بار فلسطین کا دورہ کیا۔ یہ ایک ایسا دورہ تھا، جس نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ اس کے بعد انہوں نے پوری زندگی فلسطینیوں کے حقوق کا مقدمہ لڑنے میں وقف کر دی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی کشش مجھے کھینچ کر فلسطین لائی، مگر زمینی حالات دیکھنے کے بعد مجھے حقائق کا پتہ چلا۔ مجھے اس دورے سے یہ پتہ چلا کہ فلسطینی کس قدر مظلوم اور ستم رسیدہ ہیں اور صہیونی کتنے سفاک اور خون خوار ہیں۔
یوں وقت گذرتا گیا اور فلسطینیوں کے لئے میرے دل میں محبت کے جذبات بڑھتے گئے۔ میں اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف جرائم کے واقعات سنتا، دیکھتا تو اس سے فلسطینیوں اور فلسطینی کاز سے میری محبت کو مہمیز ملتی۔ فلسطین کے دورے کے دوران مجھے ان فلسطینی شہروں اور قصبوں میں جانے کا اتفاق ہوا، جنہیں صہیونی جرائم پیشہ مسلح مافیاوں نے تہہ و بالا کر دیا تھا۔ ٹوٹے پھوٹے گھروں کے بیچ یہودیوں کے مکانات تعمیر ہو رہے تھے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ فلسطینی مظلوم ہیں اور صہیونی غاصب اور فلسطین پر ناجائز قابض ہیں۔ مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ہیروکاوا نے کہا کہ میرا یقین ہے کہ فلسطینی قوم کو جلد آزادی کی منزل ملے گی، کیونکہ وہ فلسطین کے اصلی اور حقیقی باشندے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطین آمد کے بعد میں نے مہاجرین سے ملاقاتیں کیں اور ان کے حالات سے آگاہی حاصل کی۔ وطن واپسی پر میں نے یہ تہیہ کیا کہ اب میرا کام فلسطینیوں کی حمایت کے لئے اپنی زبان و قلم کو استعمال کرنا ہے۔ اس طرح میں جاپان میں فلسطینی آنکھ بن گیا۔
ریوچی ہیروکاوا 60 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں سے ان کی 12 کتابیں صرف فلسطین سے متعلق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عزت نفس، خود اعتمادی، جرات و شجاعت اور قربانی کے معانی میں نے فلسطینیوں سے سیکھے ہیں۔ جب میں فلسطینیوں کی بے پناہ قربانیوں کا سنتا ہوں تو مجھے اپنے ضمیر میں ایک جھجھک سی محسوس ہوتی ہے اور میں یہ خواہش کرتا ہوں کہ کاش میں بھی فلسطینی ہوتا۔ جاپانی صحافی اور دانشور نے مسئلہ فلسطین کی حمایت کے لئے صرف کتابیں ہی نہیں لکھیں بلکہ جاپان میں فلسطینی بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے فلسطین چلڈرن فاونڈیشن بھی قائم کی۔ وہ پہلے جاپانی صحافی ہیں جنہوں نے لبنان میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں صبرا اور شتیلا کا دورہ کیا۔ انہوں نے یہ دورہ اس وقت کیا تھا جب صہیونی فوج نے اس کیمپ میں قتل و غارت گری کرتے ہوئے سینکڑوں فلسطینیوں کو تہہ تیغ کر دیا تھا۔ فلسطینی عاشق جاپانی تجزیہ نگار اب تک مسئلہ فلسطین کی حمایت میں جاپان میں 400 سے زاید تصویری نمائشوں کا بھی اہتمام کرچکے ہیں۔‘‘
فلم پروڈکشن کمپنی طیف نے ہیروکاوا کی زندگی پر ایک پکچر فلم بھی بنائی ہے، جسے سائے کے بغیر تصویر کا نام دیا ہے۔ یہ فلم جلد ہی قطر کے الجزیرہ ٹی وی پر نشر کی جائے گی۔ ہیروکاوا کو حال ہی میں استنبول میں منعقدہ فلسطین ذرائع ابلاغ میں “مواقع اور چیلنجز” کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں بھی مدعو کیا گیا تھا۔ مرکز اطلاعات فلسطین نے وہیں پر ان سے بات چیت کی۔ ہیروکاوا کا جذبہ اور ان کی مظلوم دوستی و حریت پسندی نے مجھے اس امر پر مجبور کیا کہ میں اردو قارئین کے لئے اس عظیم انسان کا تعارف پیش کروں، جو مذہب و نسل اور علاقائی تعلق سے بے نیاز صرف انسانیت کی حمایت میں اپنی زندگی کو صرف کئے بیٹھا ہے۔ اے کاش ہمارے دانشور بھی مظلوم فلسطینی، کشمیری اور دیگر مظلومانِ جہاں کا اسی طرح درد محسوس کریں، جس طرح ہیروکاوا کر رہے ہیں۔ اگر مسلم ممالک کا حکمران طبقہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے، ایک دوسرے کی طاقت بن کر عالمی طاقتوں کے سامنے کشمیر و فلسطین کے مسائل کو اجاگر کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ظالم طاقتوں کی جارحیت اور غاصب قوتوں کی پیش قدمی کو روکا نہ جاسکے، مگر اے کاش!
ولایت ٹائمز ڈاٹ کام