روز قدس مستضعفینِ جہاں کی شادی کا دن

سید ماجد رضوری ماگام کشمیر

سرینگر/عالمی یومِ قد س اُمت مسلمہ کے لیے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے ایک نعرے اورایک مقصد کے تحت مسلمانانِ عالم کی اقتدار کے مجتمع ہونے کا دن ہیں سبھی مسلم مُمالک اورمسالک کے مابین اتحادویگانیت کا دن ہے یوم اسلام ، یوم انسانیت اور یوم انقلاب ہے ۔
بُت شِکن امام خُمینی ؒ نے ماہِ رمضان المبارک میں یوم قُدس قرار دِیا ۔

از قلم:سید ماجد رضوری ماگام کشمیر
بِسْم اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
عالمی یومِ قد س اُمت مسلمہ کے لیے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے ایک نعرے اورایک مقصد کے تحت مسلمانانِ عالم کی اقتدار کے مجتمع ہونے کا دن ہیں سبھی مسلم مُمالک اورمسالک کے مابین اتحادویگانیت کا دن ہے یوم اسلام ، یوم انسانیت اور یوم انقلاب ہے ۔
بُت شِکن امام خُمینی ؒ نے ماہِ رمضان المبارک میں یوم قُدس قرار دِیا ۔یوم القدس یومِ مستضعفینِ جہاں ہے امام خُمینی فرماتے ہیں ’’ میں کئی سالوں سے غاصب اسرائیل کے خطرے کے بارے میں مسلمانوں کو کہتا رہا ہوں اب تو آج کل ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں پر وحشیانہ حملوں میں شِدت آئی ہے اور خاص کر جنوبی لبنان پر فلسطینی مبارزوں کا خاتمہ کرنے کے لئے ان کے گھر و بار پر بم بھاریاں کرتے ہیں میں عالمِ اسلام کے ہر مسلمان اور اسلامی حکومتوں سے چاہتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھوں کو کاٹنے کے لئے آپس میں متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ ماہِ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کے جو کہ ایام قدر ہے اور فلسطینی عوام کے مستقبل کے حوالے سے موثر بھی ہو سکتا ہے کہ( روزِ قُدس ) کا انتخاب کرے اور مسلمانوں کے بین الاقوامی اتحاد اور مسلمانوں کے قانونی حقوق کے لئے مُظاہروں کا اہتمام کرنے کی اپیل کرتا ہوں خُدائے متعال سے مسلمانوں کی اہلِ کُفر پر کامیابی کے لئے دعا گو ہوں ‘‘ (صحیفہ امام جلد ۹ ص ۲۶۷) قبلہ اول کا تقدس اس کے نام سے ہی عیاں ہے اور اس کی تقدیم و تقدس کے لئے یہ امر کافی ہے کہ اس سے مسلمانانِ عالم کے قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہے خدا کے اس مقدس گھر کے جانب رُخ کر کے اولین و سابقین مومنوں نے امام المرسلین حضرت محمد مصطفی ؐ کی امامت میں نماز ادا کی خدا وند عالم نے اپنے محبوب کو معراج پر لے جانے کے لئے روئے زمین پر اسی مقدس مقام کا انتخاب کیا جب سے اسکی بنیاد پڑی ہے خاصانِ خدا بالخصوص پیغمبروں ؑ نے اسکی زیارت کو باعثِ افتخار جانا ہے بیت المقدس بارگاہِ خدا وندِ کے ان اولین سجدہ گزاروں اور توحید پرستوں کا مرکز اول ہے جن کے سجدوں نے انسانیت کو ہزار سجدے سے نجات دِلا دی وہی قبلہ اول آج امریکی کٹھ پتلی اسلام دشمن ، انسان دشمن ،جابر و غاصب اسرائیل کے ہاتھوں پامال ہوتا جا رہا ہے اور بزبانِ حال دنیا کے تمام مسلمانوں سے اپنی بازیابی کا مطالبہ کر رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی حالتِ راز پر نوحہ کُناں بھی ہے یقیناًہر با غیرت مسلمان کے دل میں یہ بات کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے کہ اس کا مرکزِ اول اسلام کے سب سے بڑے خطرناک اور دیرینہ دشمن کے قبضے میں ہے وہ اسکی جب چاہئے بے حرمتی کا مرتکب ہو سکتا ہے اور اسکی تاک میں ہے کہ اس سے مسجدِ الاقصیٰ کی مسماری کا موقع فراہم ہو جائے ۔
1992 ء میں اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ اعظم رابن کے یہ ہیجان انگیز الفاظ قابلِ توجہ ہیں کہ ہر یہودی چائیے وہ مذہبی ہو یا لادینی (سیکولر) اسکا عہد کرتا ہے کہ اے یروشلم ۔۔! اگر میں تجھے بول جاؤں تو میرا دایاں ہاتھ برباد ہو ۔ صہیونیوں نے بیان بازی پر ہی اکتفاء نہیں کیا ( نام نہاد اسلامی حکمرانوں کی طرح ) بلکہ اس سلسلے میں کہی ظالمانہ اور کٹھور اقدامات اٹھائے مکاری اور فریب کے تمام ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کئے فلسطینی مسلمانوں کو شہرِ بدر کر کے اسمیں یہودیوں کو بڑے ہی شدو مد سے بسایا وقتاً فوقتاً اس شہر میں اسلامی شعائر و آثار مِٹانے کی کوشش کی حتیٰ کہ مسجد الاقصیٰ میں آگ بھی لگا دی مسلمانوں کے مقامِ مقدسہ کی توہین کی گئی بارہا مسجد اقصیٰ کے فرش کو فلسطین کے نمازیوں کے خون سے رنگین بنایا گیا مسجد الاقصیٰ کے درو دیوار مظلوم فلسطینیوں کی حالالتِ زار پر لرزاں و ترساں ہیں اور نام نِہاد مسلم حُکومتوں کے سربراہ اپنے عشرت کدوں میں بے حس و حرکت پڑے ہیں ان شعائر اللہ کا اغیار کے قبضے میں ہونا اور ان کی روزانہ توہین در اصل مسلمان عالم کی لاچاری و محکومی کی کھلی دلیل ہے جہاں تک مسجد الاقصیٰ کی بازیابی کا تعلق ہے یہ کسی خاص خطے یا فرقے کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے وابستہ نہیں ہے بلکہ مذہبی اور اخلاقی طور پر تمام مسلمانوں پر فرض عائد ہوتا کہ عالمِی پیمانے پر حتی الوسع آزادی قدس کی تحریک کا اہتمام کریں جو جذباتی وابستگی روحانی وابستگی اور کل بھی احترام کعبہ شریف تئیں دنیا بھر کے مسلمانوں میں پایا جاتا ہیں وہی احترام و تقدس قبلہ اول کے حوالے سے بھی ہونا چائے تو پھر اس طرح کے سوالات حقیقی مسلمان کے دل کو بے چین کیوں نہ کریں کہ بیت المقدس کی صیہونیت کے چنگل سے رہائی کے سلسلے میں عالمیِ پیمانے پر کوئی منظم اور عالم گیر تحریک چلائی کیوں نہیں جاتی ۔۔؟ کیوں اس مسئلے کو طاق نسیاں کے حوالے کیا گیا ہے ۔۔؟ کیوں اس معاملے میں مسلم حکومتیں با الخصوص مشرقِ وسطیٰ اور عرب ریاستوں کے حکمران سعودی عرب ، قطر ، کویت، ترکی وغیرہ سرد مہری کے شکار دکھائی دے رہے ہیں آخر ایسا کیوں ۔۔؟
یومِ قدس روح اللہ امام خُمینی ؒ کی نظر میں :
۱)روزِ قُدس کا احترام کریں اور اس سے سال کا اہم ترین دِن سمجھیں۔
۲)یوم قدس ایک عالمِی دن ہے یہ دن صرف بیت المقدس سے مخصوص نہیں بلکہ مستضعفین کا مستکبرین کے خلاف مقابلہ کا دن ہیں ۔
۳)بیت المقدس کا تعلق مسلمانوں سے ہے اور انہیں واپس ملنا چائیے اور یوم قدس یوم اسلام ہیں عرب برادر قومیں اور فلسطینی و لبنانی بھائی جان لیں کہ ان کی بد بختی کی وجہ غاصب اسرائیل اور شیطانِ بزرگ امریکہ ہے ۔
۴)یوم قدس عالمِ اسلام کے لئے نِہایت اہم اور قیمتی ثابت ہوگا ۔
۵)ہم مظلوم کے حامی ہیں دنیا کے جس گوشہ میں مظلوم ہو ہم اسکے حامی ہیں فلسطینی مظلوم ہیں اسرئیلوں نے ان پر ظلم کیے ہیں لہٰذا ہم ان کے بھائی ہیں ۔
۶)یوم قدس وہ دن ہے جسمیں کمزور ملتوں کے تقدیر کا فیصلہ ہونا چائیے ۔
الغرض امام خمینی ؒ ہمیشہ مظلوموں کے حامی اور ان کے دشمنوں کے دشمن رہے ہیں چائیے وہ فلسطین ، یمن، بحرین یاہمارا وطن عزیز مظلوم کشمیر ہو جہاں ہندوستان نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کر دی جنتِ بے نظیر ، وادیِ گلپوش میں باغوں کے بجائے قبرستان سجائے بھارتی فورس نے صنفِ نازک کی عزت تار تار کر دی کتنے گھرانے اُجڑ گئے اسرائیل کے نقشہ قدم پر چل کر مظلوم کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ا ے کاش مسلمانوں نے امامِ خُمینی ؒ کی درد بھری آواز پرمسلکی منافرت سے اوپر اُٹھ کر کان دھر لئے ہوتے ہو آج مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی دنیا بھر میں سب سے سستا خون مسلمانوں کا بہایا جا رہا ہے اسکے پس پردہ بھی دشمنانِ اسلام کی منظم سازش ہے ۔
امام خُمینی ؒ کی نظر میں بیت المقدس باطل کے خلاف ایک فروزاں علامت ہے جس سے راہِ حق میں جدو جہد کرنے والے اپنے لئے مینارِ ہدایت سمجھتے ہیں آج دنیا بھر میں مسلمان بِنا لحاظ مسلک و مشرب امام خُمینی ؒ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یومِ قدس مناتے ہیں اور مظلومانِ عالم سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں ۔
سوئے ذہنوں کو جگا کر سو گیا وہ مردِ حق
منفرد کردار سے دُنیا کو حیران کردیا