سگی پورہ سوپور میں نا معلوم مسلح افراد نے باپ بیٹے کا خون بہایا،اہل کشمیر ماتم کناں

یہ کس کا لہو ۔۔۔یہ کون مرا

 

شمالی کشمیر قصبہ سوپور کےمضافاتی علاقہ سگی پورہ میں نامعلوم مسلح افراد نے 18ستمبرتقریباًسات بجے سابق عسکریت پسند بشیر احمدبٹ کو نشانہ بنانے کی غرض سے گرنیڈ داغا اور بعد میں اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 35سالہ بشیر احمد موقعے پر ہی جاں بحق ہوا جبکہ اس کا تین سالہ بٹیا برہان بشیر کئی گھنٹوں تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد دم توڑ بیٹھا ۔’’ولایت ٹائمز ‘‘کو ملی تفصیلات سگی پورہ سوپور کے قریب موٹر سائیکل بغیر نمبر پلیٹ پر سوار دو اسلحہ برداروں نے بشیر احمد (ٹھیکیدار)پر اندھا دھند گولیاں چلائیںاورواردات کے وقت برہان اپنے باپ کی گود میں تھا۔مقامی لوگوں کے مطابق بشیر احمد نے بھاگنے کی کوشش کی مگر گولیاں لگنے سے زمین پر گر گئے۔خون میں لت پت باپ بیٹے کو پہلے چوگل اور بعد میں سوپور سب ڈسٹرکٹ اسپتال منتقل کیا گیا تاہم بشیر احمد راستے میں ہی دم توڑ بیٹھے ۔معصوم برہان کو سوپور سب دسٹرکٹ اسپتال سےصورہ سکمزاسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے تین سالہ برہان کا ہنگامی بنیادوں پر آپریشن کیا تاہم12گھنٹے تک مو ت و حیات کی کمشکش میں مبتلا رہنے کے بعد برہان بھی دم توڑ بیٹھا۔جونہی بشیر احمد اور تین سالہ برہان بشیرکی لاش اس کے آبائی گاؤں واقع سگی پورہ سوپور پہنچائی گئی تو وہاں کہرام مچ گیا اورخواتین و مردسینہ کوبی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ہزاروں افرادنے تین سالہ برہان کی نماز جنازہ میں شرکت کی اوراُسے باپ کے پہلو میںپرنم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک کیا۔ باپ بیٹے کی ہلاکت کے خلاف ریاست کی سبھی دینی،سیاسی،سماجی اور دیگر تنظیموں کے رہنماو ں نے قاتلوں کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا اورحریت کانفرنس کے چیرمین سید علی شاہ گیلانی کی ہڑتال کال پر کشمیر میں زندگہ کا پہیہ جام ہو کر رہ گیا اور اہل وادی دلخراش سانحہ کیخلاف احتجاج درج کیا۔سماجی نیٹ ورک سائٹوںپر برہان بشیر کی تصویربڑی تیزی کےساتھ شائع ہوئی اور ملکی و غیر ریاستی افراد نے سانحہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بزدلانہ کاروائی سے تعبیر کیا ۔ رہنماوں نے کہا کہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت کشمیریوں کا خون بہایا جارہا ہے اور ملوثین کو بے نقاب کرنے کیلئے زمینی سطح پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔سید علی گیلانی نے کہا کہ اسلام سمیت دنیا کا کوئی بھی مذہب اور کوئی بھی قانون میدانِ جنگ میں بھی معصوم بچوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ یہ پوری نوعِ انسانی کے قتل کے برابر معاملہ ہے اور جس نے بھی یہ حرکت کی ہے، اُس نے ناقابلِ معافی جُرم کیا ہے، جس پر احتجاج بلند کرنا سینے میں دل رکھنے والے ہر انسان پر فرض ہے۔انہوںنے کہا کہ شامی بچے ایلان کُردی کی موت نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور 3سالہ کشمیری بچے بُرہان کی ہلاکت سے پورے کشمیر میں ماتم کی لہر چھا گئی ہے، ہر کوئی سوال کرتا ہے کہ اس معصوم بچے کو کس جُرم میں قتل کردیا گیا ہے؟