سیرت خاتون محشر سلام اللہ علیہا

از:جی ایچ راتھر(بڈگام ) کشمیر

بسمہ تعالیٰ
خاتون محشر حضرت فاطمۃزہرا،سیدۃ نساٗءالعالمین (س)ؑ ہر اعتبار سے سیرت طیبہ کی ایک اعلیٰ اور مثالی نمونہ تھی،اٹھاہ سال کی مختصر مدت حیات میں آپ (س)نے سیرت پاک کے جو نقوش چھوڑے ،خواتین اسلام کیلئے ان کے اتباع اور انقیاد میں ان کی دنیوی و اُخروی زندگی میں سر خروی کی ضمانت ہے۔آپ (س) کی ذات مقدسہ جلال و جمال ،اخلاص و ایثار،صبر و رضا، علم و عمل اور زہد و تقویٰ کی آئینہ دار تھی،تمام انسانی قدریں اور اخلاقی میں محاسن اپنی پوری تابندگیوں کے ساتھ آپ (س) کی ذات پاک میں جلوہ گر تھے،آپ کا دل رافت و شفقت کی آماجگاہ تھا کہ حضور اکرم ﷺ نے اس کا مشاہدہ کر کے آپ سلام اللہ علیہا کو ’’اُم ابیھا‘‘کے لقب سے نوازا۔عبادت پروردگار میں سرمست قلندر،تہجد گزاری و شب بیداری ،خوف خُدا سے ثکلیٰ کی طر ح گریان۔امور خانہ داری کےچلانے میں بےجوڑ،اطاعت شوہر میں مثالی پیکر،تعلیم و تربیت اولاد میں ذہین اور زریک مُعلمہ کی حیثیت کی حامل تھی ۔اسوہ ما دریت کا حق ادا کرنے میں آپ (س) نے جو مثالی کردار پیش کیا زمانہ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ناقلانہ بصیرت رکھنے والے حکیم فیلسوف اور سخن دلنواز شاعر علامہ اقبال ؒ خاتون جنت کی عظمت مادریت کو درک کرکے مسلمان خواتین سے تلقین کرتےہیں کہ وہ اسوہ فاطمہؑکی تقلید کر کے باعث فخر ومباہات مائیں بننے کی کوشش کریں۔
منررع تسلیم راحاصل بتول ؑ
مادران رااسواہ کامل بتول ؑ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی تعلیم و تربیت کا خاطرخواہ اثر سیرت حسنین علیھما السلام اور سیرت ثانی زہرا سیدہ زینب سلام اللہ علیہا میں صاف نظر آتا ہے،حضرت امام حسن مجتبی ؑ کی صلح اور سیدنا حضرت امام حسین علیہ السلام کا یزیدیت کے خلاف قیام اور شہادت پیش کر کے رگ باطل سے خون کشیدی کا عمل سب قرآن و سنت کی بقا کیلئے تھا۔پھر سیدہ زینب (س)نے صلح امام حسن ؑ اور قیام حسین ؑ کے معنوی پہلوں کو اپنی فصیح و بلیغ زبان سے اُجاگر کیا،خوابیدہ ضمیروں کو بیدار کیا اور یزیدی اسلام پر خط بطلان کھینچ کر اسلام محمدیؐ کی حقانیت کو سرمدت اور حیات جاودان عطاکی۔یزید کی گستاخانہ اور اہانت کے حواب میں اس شیر دل خاتون پر وردہ آغوش زہرا (س)نے کہا ’’ماریہ الا جمیلا ‘‘(میرے بھائی حسین ؑ اس کے انصار اور اقارب کی شہادت میں مجھے خیر کے سوا کچھ نظر نہیں آتا)۔ہمارے ہی گھر کو خدانے رسالت ،امامت اور شہادت کا شرف عطاکیا۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ ما ل غنیمت نہ کشو ر کشائی
سیدۃ نساء اہل الجنت حضرت فاطمہ زہرا (س) صبر و رضا کی پیکر تھی۔ہم روزمرہ زندگی میں بخوبی اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں خواتین حضرات ایک فالتو چیز کے میسر نہ ہونے پر اکثر ناک بھوں چڑھاتی ہیں اور بسااوقات میںمہا بھارت بھی شروع کر دیتی ہیں۔سیرت زہرا (س) کا یہ عالم دیکھو کہ تین روز تک گھر میں ہانڈی نہ پکی۔پھر بھی شوہر نامدار خیبر کشا حضرت علی مرتضیٰ ؑسے شکایت نہ کی۔شکایت نہ کرنے کی وجہ پوچھنے پر عرض کیا کہ خانہ وحی و رسالت سے رخصتی کے موقع پر بابا حضورﷺنے نصیحت فرمائی تھی۔اپنے شوہر سے کبھی کسی چیز کی شکایت کرکے تنگ نہ کرنا۔آپ(س) گھر میں چکی خود پیستی تھی اور سوت کات کر اپنے شوہر کا ہاتھ بٹاتی تھی۔عبادت اور اطاعت پرودگار کا اتنا ذوق اور شوق تھا کہ عسرت کی زندگی کے باوجود کسی وقت قرآن اور ذکر الٰہی سے غافل نہ ہوتی تھی۔اقبالؒفرماتے ہیں:
آسیا گردان ولب قرآن سوا
یعنی چکی پستے وقت بھی کلام اللہ کی تلاوت میں مصروف رہتی تھی۔خدا ترسی کا یہ عالم تھا کہ جب نماز اداکرنے کیلئے بارگاہ احدیت میں قیام فرماتی تھی تو مصلیٰ اشک سے تر ہو جاتااور حضرت جبرائیلؑ ان آنسوؤں کو زمین سے اٹھا کر عرش پر پھیلاتے تھے تاکہ اس کی زینت بنیں۔
اشک او بر چید جبر ئیل اززمین
ہم چو شبنم ریخت بر عرش برین
روایت میں آیا ہے کہ آپ (س) نے خوف خُدا سے بہائے اشکوں کے موتیوں کو ایک شیشی میں جمع کیا تھا اور حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام سے وصیت کی تھی کہ وہ آپ کی رحلت کے وقت آپ کے کفن کے ساتھ جہیز آخرت کے طور پہ ڈالے کیونکہ عالم برزخ میں بہت سارے ایسے پیچیدہ مراحل ہیں جن میں خوف خُدا سے بہائے آنسوکام آتے ہیں۔
قرآن کی رو سے خواتین حضرات کیلئے پردے کا اہتمام کرنا فرض کیا گیا ہے ۔موجودہ دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے اثرات نے ہماری لڑکیوں کو اس قدر متاثر کر دیا ہے کہ وہ پردہ کابالکل بھی اہتمام نہیں کرتی ہیں۔عفت اور ناموس کے تصور سے بالاتر ہو کر گھر سے بے حجاب نکل کر نامحرم افراد کے ساتھ سڑکوں ،گلیوں اور تفریحی مقامات پر جاکر کپ شپ میں مصروف ہوجاتی ہیں اور اس طرح بے حیائی کے حدود میں انتہا کرتی ہیں۔معاشرے میں بےراہ روی اور اخلاقی فساد کو ہوا ملتی ہے۔اسی وجہ سے ایک خاص پس منظر میں مولائے کائینات ؑ نےفرمایا ہے ’’المرأۃ شرُُ کلہا‘‘یعنی عورت جب شرعی حدود سے باہر نکلتی ہے اور بے راہ روی کے دام میں گرجاتی ہے تو وہ مسجمہ شربن جاتی ہے ورنہ بقول اقبال ؒ :
وجود زن سے ہے تصیویر کائینات میں رنگ
اُسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
ہماری لڑکیوں کیلئے زہرا مرضیہ (س) کی پردہ داری اور پارسائی ایک لمحہ فکریہ ہے ۔آپ کی عفت اور پردہ داری کا یہ عالم تھا کہ آپ نابینا کے سامنے بھی حجاب کرتی تھی اور جب سرور کائینات ﷺ نے پوچھا ،نابینا سے پردہ داری کیوں؟عرض کیا اگر وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا ہے لیکن میں اس کو دیکھتی ہوں۔
اقبال مسلم خواتین سے کہتا ہے کہ تم قوم کی شیرزاہ بند ہو،تیری چادر قوم کی محافظ ہے،تری دینداری کی دولت پر قوم میں دینداری کا رنگ قائم ہے۔
اس لئے مغربی عورتوں کے بجائے اُن مسلمان عورتوں کی تقلید کریں جنہوں نے اسلام کی خدمت کی ہے۔اگر ہوسکے تو سیرت فاطمہ زہرا (س) کی اتباع کر تاکہ اللہ تیری آغوش سے ایسے نوجوان تربیت پاکر نکلیں جو حضرت امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چل سکیں۔
بتول باش و پنہان شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرے بگیری