خداوندِ عالم اِس ماہ میں اپنے بندوں کے گناہوں کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے اور اْنہیں بخش دیتا ہیروزہ کو فارسی میں روزہ داری، عربی میں صوم، ہندی میں برت اور انگریزی میں فاسٹنگ کہتے ہیں۔ روزہ رکھنے کا حکم ربِ دو جہاں نے قرآنِ مجید کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر۳۸۱(یا ایھالذین امنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون) میں اِس طرح دیا ہے کہ اے ایمان والو! آپ پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بنو۔ یہ روزہ رکھنے کا حکم دو شعبان دو ہجری یعنی ۸۲ جنوری ۴۲۶ء کو مدینہ میں نازل ہوا۔ رمضان المبارک وہ واحد مہینہ ہے، جس کا نام سورہ بقرہ کی آیت نمبر۵۸۱(شہر رمضان الذی انزل فیہ القران) میں آیا ہے، جس میں خداوند قدوس فرماتے ہیں کہ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآنِ مجید نازل کیا گیا۔ کتاب مْستدرک الوسائل میں فرمانِ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ رمضان گناہوں کو جلا دینے والا مہینہ ہے اور خداوندِ عالم اِس ماہ میں اپنے بندوں کے گناہوں کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے اور اْنہیں بخش دیتا ہے۔ ماہِ رمضان عربی مہینوں کا نواں مہینہ ہے، جو تمام مہینوں سے افضل ہے اور اِسی مہینے میں سب راتوں سے افضل رات شبِ قدر بھی موجود ہے، جو ہزار مہینوں (۳۸ سال اور۴ ماہ) سے بہتر ہے۔
روزہ کسی نہ کسی شکل اور نوعیت میں دْنیا کے تقریباً تمام مذاہب، اقوام اور دیگر مخلوقات میں بھی پایا جاتا تھا اور آج بھی پایا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا میں روزہ کو سبھی اقوام سے مْتعلق بتایا گیا ہے۔ روزہ ایک ایسا اَمر ہے، جو انسانی فطرت کے ساتھ بالکل سازگار ہے۔ وہ قومیں جو آسمانی اَدیان کے تابع نہیں تھیں، جیسے مصر، یونان اور رْوم کی قدیم اقوام یا ہندوستان کے بْت پرست لوگ، یہ سارے کے سارے اپنے اپنے عقائد کے مطابق روزہ رکھتے تھے اور آج بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اِسلام کے علاوہ یہودیت اور عِیسائیت کی ابتدا بھی سچے پیغمبروں سے ہوئی تھی، لیکن باقی مذاہب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل آسمانی ہدایت کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں، یا پھر پیش کرنے والوں نے خدائی شریعت کے رنگ ڈھنگ میں نقالی کی ہے۔ بہرحال اِن تمام مذاہب میں جہاں اور بہت سی عبادات موجود ہیں، وہاں روزہ کی عبادت بھی تواتر سے موجود ہے۔
ہندومت تقریباً چار ہزار سال پہلے ہندوستان میں اختیار کیا گیا۔ ہندومت میں ویکنتا ایکاوشی وہ تہوار ہے، جس میں دن کو روزہ (برت) رکھا جاتا ہے اور رات کو عبادت کی جاتی ہے۔ ہندو جوگی جب چلہ کشی کرتے ہیں تو وہ چالیس دن تک روزہ رکھتے ہیں۔ برہمن جو ہندوؤں کی برتر ذات ہے، اْن پر ہر ہندو مہینے کی گیارہ تاریخ کو روزہ فرض ہے۔ اِس کے علاوہ ہندی مہینے کاتک کے ہر سوموار کو روزہ رکھا جاتا ہے۔ ہندو سنیاسی بھی جب اپنے مْقدس مقامات کی زیارت کیلئے جاتے ہیں تو وہ روزہ میں ہوتے ہیں۔ ہندوؤں میں نئے اور پورے چاند کے دنوں میں بھی روزہ رکھنے کا رواج ہے۔ اِس کے علاوہ قریبی عزیز یا بزرگ کی وفات پر بھی روزہ رکھنے کی رِیت پائی جاتی ہے۔ ہندومت میں تذکیہء4ِ نفس اور کفارے کا روزہ بھی رکھا جاتا ہے۔ ان تمام روزوں کے علاوہ منت، نذر اور شکرانے کے روزوں کا بھی رواج ہے۔ خاص بات یہ کہ ہندو عورتیں اپنے شوہروں کی درازیءِ عْمر کیلئے بھی کڑوا چوتھ کا روزہ رکھتی ہیں۔
پارسی مذہب جس کی اِبتدا حضرت عیسٰی علیہ السلام سے چھ سو سال پہلے فارس (ایران) میں ہوئی تھی، اْس میں بھی روزہ رکھا جاتا ہے۔ لیکن آج کل وہ زیادہ تر کھانا پینا ترک نہیں کرتے بلکہ آنکھ، کان، زبان اور ہاتھ وغیرہ سے گناہ نہ کرنے کی نیت کرکے روزہ رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر کھانا پینا ترک کیا جاتا ہے، لیکن آنکھ، کان، زبان اور ہاتھ وغیرہ سے گناہوں سے بچنے کی کوشش نہیں کی جاتی جبکہ روزہ میں یہ ساری باتیں شامل ہیں۔ بْدھ مت جس کا آغاز بھی چھ سو سال قبلِ مسیح ہندوستان کے شمال مشرقی حصے میں مہاتما بْدھ سے ہوا تھا، کے وہ تیرہ اعمال جو خوشگوار زندگی گزارنے کا حصہ ہیں، اْن میں روزہ بھی شامل ہے۔ بْدھ مت کے بھکشو (مذہبی پیشوا) کئی دنوں تک روزہ رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ گوتم بْدھ کی برسی سے مْتصِل پہلے پانچ دن کے روزے رکھے جاتے ہیں، یہ روزے بھکشو مکمل رکھتے ہیں، لیکن عوام جزوی روزہ رکھتے ہیں، جس میں صرف گوشت کھانا منع ہوتا ہے۔ بْدھ مت میں عام پیروکاروں کو ہر ماہ چار روزے رکھ کر گناہوں کا اعتراف اور توبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے، جبکہ چین کے علاقے تِبَتّ میں چار دن کا روزہ رکھا جاتا ہے، جس میں پہلے دو دنوں میں شرائط کچھ نرم ہیں، لیکن تیسرے روزے کی شرائط اِتنی سخت ہوجاتی ہیں کہ تھْوک نگلنا بھی منع ہوتا ہے۔
مْقدّس کتاب اِنجیل میں حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اپنے حواریون کو خوش دِلی سے روزہ رکھنے کی تاکید کی ہے۔ عیسائی لوگ فرض روزوں کے ساتھ ساتھ نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتے ہیں۔ رومن کیتھولک عیسائیوں میں بْدھ اور جمعہ کو اب بھی روزہ رکھا جاتا ہے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ چرچ کا پادری سال میں کسی بھی وقت روزہ رکھنے کا شیڈول جاری کرتا ہے، جو سال کے پہلے تین دن، سات دن، اکیس دن یا مہینے پر مشتمل ہوتا ہے۔ عیسائی لوگ اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق شیڈول پسند کرکے روزے رکھتے ہیں۔ اِن روزوں کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں پانی پینے کی اجازت ہوتی ہے کیونکہ اْن کے بقول پانی خوراک میں شامل نہیں ہے۔ لیکن ا?ج کے جدید دَور میں کچھ پادریوں نے روزہ رکھنے کو انسان کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے اور فرض کی حیثیت بھی ساکت کر دی ہے۔
مسلمانوں کے علاوہ یہودی بھی بہت زیادہ روزے رکھتے ہیں۔ حضرت موسٰی علیہ السلام پر نازل ہونے والی مْقدس کتاب تورات میں کئی مقامات پر روزہ کی فرضِیّت کا حکم دیا گیا ہے۔ یہودیوں میں تذکیہء4ِ نفس اور خیالات کی یکسْوئی کیلئے روزہ رکھنے کی رَسم پائی جاتی ہے۔ مْصیبت اور آفاتِ انسانی کے موقع پر بھی یہودی روزہ رکھتے ہیں۔ بارشیں نہ ہو رہی ہوں اور قحط سالی ہو تو بھی روزہ رکھا جاتا ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے یومِ انتقال، یہودی مذہب کے بزرگان اور اپنے والدین کے یوم وفات پر بھی عموماً روزہ رکھا جاتا ہے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ بہت سے جانور، پرندے اور مچھلیاں بھی روزہ رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ گْلہری جو زمین پر بِل بنا کر رہتی ہے، وہ سردیوں میں چار سے پانچ پانچ دن کا روزہ رکھتی ہے۔ گلہری یہ روزہ اِس لئے رکھتی ہے کہ سردیوں میں اْسے بِل میں چھْپ کر رہنا پڑتا ہے اور ذخیرہ کی گئی خوراک پر ہی گزارہ کرنا ہوتا ہے۔ اِس لئے خوراک کی کمی کی وجہ سے قْدرت نے اْسے یہ اِلہام کر رکھا ہے کہ جب تک سردی ہے اور خوراک کی کمی ہے، وہ چار سے پانچ پانچ دن کا روزہ رکھتی رہے، تاکہ یہ سردیوں کا سخت موسم گزر جائے اور پھر وہ اپنی نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئے۔
زقزاق یا مْرغِ باراں ایک ایسا پرندہ ہے جو امریکہ کی ریاست الاسکا کے دَلدلی علاقے میں رہتا ہے اور ہِجرت کے موسم میں نو ہزار کلومیٹر کا سْمندری دْشوار گذار فاصلہ طے کرکے انڈونیشیا کے علاقے میں آتا ہے۔ اِس راستے کو عبور کرنے کیلئے اْسے ا?ٹھ دن مسلسل سمندر کے اوپر پرواز کرنا پڑتی ہے اور وہ یہ اِتنا طویل فاصلہ روزہ کی حالت میں صِرف اور صِرف اللہ تعالٰی کی دی گئی ہِمّت اور حوصلے سے طے کرتا ہے۔ پینگوئن سرد علاقوں میں رہنے والا وہ خوبصورت پرندہ ہے، جو ہر سال سردیاں قْطب جنوبی میں گزارتا ہے اور بہار آتے ہی قْطب شمالی کی جانب سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ مادہ پینگوئن انڈے دیتی ہے اور نر پینگوئن دو ہفتے تک روزہ رکھ کر انڈے سینچتا رہتا ہے اور بچوں کی پیدائش تک وْہیں گھونسلے میں موجود رہتا ہے۔ اولاد کی خاطر پینگوئن والد کا دو ہفتے کا مْسلسل روزہ اِنسان کیلئے سبق چھوڑتا ہے۔
ایک قْدرت کا کرشمہ گھْونگھا ہے، جسے اِنگلش میں سَنیل کہتے ہیں، جو زیادہ سخت سردی اور گرمی میں درخت کے تنے، باڑ یا دیوار پر چِپک کر اپنے اْوپر ایک خول چڑھا لیتا ہے۔ سردی اور گرمی کے خاتمے تک روزہ رکھتا ہے اور موسم اچھا ہوتے ہی اپنی جگہ چھوڑ کر دوبارہ زمین پر آجاتا ہے۔
اِسی طرح پینگولن ایک چیونٹی خور جانور ہے جو سایہ دار اور بے آباد جنگل میں رہتا ہے، ایک ماہ کا مسلسل روزہ رکھتا ہے۔ ایک تو ہجرت کے موسم میں اِن جانوروں کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور خوارک کی کمی ہوجاتی ہے۔ دوسرا یہ جانور کھانے میں بہت حریص ہوتا ہے اور جلدی موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اِن باتوں کے پیش نظریہ جانور ایک ماہ تک کا روزہ رکھتا ہے۔
مندرجہ بالا معلومات پر ہمیں حیران اور تعجب کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ سورہ جمعہ کی آیت نمبر۱(یْسَبحْ للہ مافی السموات ومافی الارض) میں ربِ کائنات کا واضح فرمان ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے، وہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ اب کوئی انسان یہ بتا سکتا ہے کہ کبھی درخت، پہاڑ، بادل، جانور اور پرندوں کو اْس نے تسبیح و تقدیس کرتے دیکھا ہے۔ نہیں، کیونکہ یہ تمام مخلوقاتِ خداوندی تسبیحِ خدا تو کرتی ہیں، لیکن اْن کی بناوٹ اور نوعیت ہم سے بالکل جدا اور مختلف ہے اور ساتھ ہی ہم اْن کی عبادات کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ قرآنِ کریم کی سْورہ رحمٰن کی آیت نمبر۶ (والنجم والشجر یسجدان) میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ اور بیلیں اور درخت (اللہ کو) سجدہ کر رہے ہیں۔ اب کسی انسان نے بیلوں اور درختوں کو کبھی سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ نہیں، کیونکہ اللہ تعالٰی نے ہمیں ایسا کچھ دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں دی۔ ہم تو قوسِ قزح کے صرف سات رنگوں کو ہی دیکھ سکتے ہیں، حالانکہ اِن رنگوں کے اْوپراور نیچے اور رنگ بھی موجود ہیں، جن کو دیکھنے کی اِس انسانی آنکھ میں سکت اور اہلیت نہیں۔ اِسی لئے تو قوسِ قزح کے وہ رنگ جو بنفشی رنگ سے نیچے ہوتے ہیں اْن کو اَلٹرا وائلِٹ کہا جاتا ہے اور جو رنگ سرخ رنگ سے اْوپر ہوتے ہیں، اْن کو اِنفرارَیڈ کہا جاتا ہے۔
جہاں تک جِنّات کے روزہ رکھنے کا معاملہ ہے تو وہ بھی اپنے انداز اور طریقے سے روزہ رکھتے ہیں، کیونکہ ایک تو سْورہ الذاریات کی آیت نمبر۶۵ (وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون) میں ارشادِ خداوندی ہے کہ اور مَیں نے جِن اور انسان کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔ دوسرا سورہ جِن کی آیت نمبر۴۱ (وانامناالمسلموں ومناالقاسطون) میں جِنّات کہتے ہیں کہ اور ہم میں سے کچھ مْسلمان ہیں اور کچھ نافرمان ہیں۔ اِن آیات سے واضح ہوتا ہے کہ جنات عبادت کیلئے پیدا کئے گئے اور اْن میں سے کچھ مسلمان بھی ہیں۔ پس جو مْسلمان ہیں اْن پر بحیثیت مْسلمان تمام عبادات بجا لانا لازم اور ناگْزیر ہے۔ فرشتوں کے حوالے سے سْورہ الانبیا کی آیات نمبر ۹۱اور۰۲ (لایستکبرون عن عبادتہ ولا یستخسرون۔ یسبحون الیل والنھاریایفترون) میں اللہ رْبّْ العِزت فرماتے ہیں کہ وہ عبادت سے سرکشی نہیں کرتے اور نہ تھکتے ہیں۔ رات اور دِن کو تسبیح کرتے ہیں، سْستی نہیں کرتے۔ قْرآنِ مجید سے فرشتوں کی عبادت تو ثابت ہے، لیکن روایات میں اْن کا روزہ رکھنا نہیں ملتا کیونکہ یہ بھوک اور پیاس سے بالاتر ہیں۔
معلوم نہیں اشرف المخلوقات انسان میں سے وہ کون سے لوگ ہیں، جو ربِ کائنات کے روزہ رکھنے کے فرمان اور حْکم کو پَسِ پْشت ڈال کر نہ صرف یہ کہ روزہ نہیں رکھتے بلکہ روزہ اور روزہ داروں کا مذاق بھی اْڑاتے ہیں۔ ایسے ہی ناشکرے، نافرمان اور بدبخت انسان کیلئے اللہ تعالٰی کا نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں بھرا مہینہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاتے جاتے یہ کہتا جاتا ہے کہ افسوس ہے ایسے انسان پر جس نے ربِ دو جہاں کی طرف سے بھیجے گئے مْجھ جیسے مہربان مہینے کو اپنے درمیان پایا، لیکن میرے فیوض اور برکات سے فائدہ نہ اْٹھایا۔ پھر بھی اِس فانی دْنیا میں رب تعالٰی کے ایسے فرماں بردار نیک بندے بھی موجود ہیں، جو ماہِ رمضان کی آمد پر خْوش ہوتے ہیں اور اْس کی رْخصتی پر بہت پریشان ہو جاتے ہیں۔ پس ہم سب کو رمضان المبارک کا خْوش دِلی سے اِستقبال کرنا چاہیے اور اپنی دْنیاوی و اْخروی بھلائی اور بہتری کیلئے تمام تر بہانوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خداوندِ عالَم کے اِس فرمان بلکہ ہر فرمان پر سر خم کر دینا چاہیے۔