صیہونی لابی اور اسلامی مقاومت؟کیا شیر کو گیدڑ اور گیڈر کو شیر کہا جا سکتا ہے؟

ترجمہ: الف۔ ع۔ جعفری
لبنان کے تمام قبیلوں نے گزشتہ چالیس سال کے عرصے میں دو واقعات؛ ایک داخلی خانہ جنگی اور دوسرے اسرائیل کا لبنان پر ظالمانہ قبضہ، سے بقدر کافی رنج و الم اٹھایا ہے۔ کوئی ایسا لبنانی باشندہ نظر نہیں آئے گا جو ان دو واقعات سے شیریں یادیں اپنے ذہن میں رکھتا ہو۔ ان وقائع نے لبنانیوں کے سکون کو چھینا اور ان کی زندگیوں کو قتل و غارت اور ظلم و سفاکیت کی بھینٹ چڑھایا۔
دو دہائیوں کے رنج و الم کو برداشت کرنے کے بعد جس چیز نے لبنانیوں کو صیہونیوں کے چنگل سے نجات دلائی اور اسرائیل کے ناپاک وجود میں ایسا خوف پیدا کیا کہ اس کے بعد لبنان پر دوبارہ حملہ تو دور کی بات اس کے بارے میں سوچ کر بھی اسرائیل کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں وہ ہے اسلامی مقاومت اور حزب اللہ۔
لبنان کے لوگ یہ نہیں بھول سکتے کہ انہوں نے کیسے قومی یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے2006 میں33 روزہ جنگ کے دوران جنوبی لبنان کے بے گھر زخمی ہم وطنوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی اور انہیں اپنے ساتھ ایک دسترخوان پر شریک کیا۔ لبنانی قوم اس وقت کو کبھی نہیں بھول سکتی جب جنوبی ضاحیہ قاتلانہ حملوں کی آماجگاہ بن چکا تھا تو دیگر اہل وطن نے ضاحیہ کے رہنے والوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی اور بالکل یہ نہیں دیکھا کہ وہ عیسائی ہے یا دروزی، سنی ہے یا شیعہ۔ بلکہ ایک جذبے کے تحت سب متحد ہوئے اور اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کیا۔
اسی وجہ سے جب صیہونیوں کو شکست ہوئی اور تاریخِ جارحیت میں پہلی مرتبہ امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل کو شرمندگی اور ندامت کا منہ دیکھنا پڑا تو لبنان کے تمام قبیلوں نے خوشی کے جشن منائے اور استقامت و تحریک کی کامیابی پر مسرت کا احساس کیا اور اسلامی مقاومت اور سید حسن نصر اللہ، دنیائے عرب کے لیے عزت اور سربلندی کا تاج بن گئے۔
لبنان کے عوام اپنی گزشتہ تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے جتنا پیچھے جائیں گے انہیں یہی نظر آئے گا کہ اس ملک میں جنگ بھڑکانے والی غیر ملکی طاقتوں سے انہیں صرف نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے لہذا جب بھی انہوں نے قومی اتحاد کو گنوایا بدامنی اور زبوں حالی کا شکار ہوئے۔ کون نہیں جانتا کہ شام کا بحران، سعودی عرب کا اسد خاندان سے انتقام لینے اور دیگر اسلامی عربی ممالک کے سامنے اپنی برتری جتانے کا نتیجہ ہے اس لیے کہ سعودی عرب علاقے کے تمام ممالک کو اپنا زرخرید غلام سمجھتا ہے اور یہ کوشش کرتا ہے کہ علاقے کے تمام ممالک اس کے سامنے سرجھکائے رہیں اور بلا چوں و چرا اسکے مطیع بنے رہیں۔
کون ہے جو نہیں جانتا کہ تکفیری دہشتگردآل سعود اور وہابی مدرسوں کے پروردہ ہیں جن کا پیشہ لوگوں کو راہ راست سے منحرف کرنا اور صیہونی چہرے پر نقاب ڈال کر دشمن کی جگہ دوست اور دوست کی جگہ دشمن کو لا کر کھڑا کرنا ہے۔
سعودی اسرائیلی لابیوں نے گزشتہ چار سال سے شمالی لبنان کو ایک ٹکنیکل کیمپ میں تبدیل کر رکھا ہے جہاں سے وہ شام میں دھشتگرد اور اسلحہ سپلائی کرتے ہیں اور شمالی لبنان نیز بقاع کے علاقوں سے لوگوں کے امن و چین کو دا پر لگا رکھا ہے تاکہ شام جو اسلامی مقاومت کی فرنٹ لائن ہے کو اسرائیل کا مقابلہ کرنے کا مزہ چکھائیں۔ لبنان کی تاریخ میں سعودی عرب سے جو کچھ ہمیں نصیب ہوا وہ لبنان کے عالیشان قصروں میں شراب و کباب اور رقص و گانے کی محفلیں اور جوئے کا کھیل تھا۔ لیکن جب لندن کے جوئے خانوں میں انہیںراستہ مل گیا تو لبنان کو دہشتگردوں کا اڈہ بنانا شروع کر دیا۔
آج جب بحرین میں آل خلیفہ خاندان کی جارحیت، یمن میں درندگی اور سفاکیت اور علاقے میں جاری سعودی ڈرامہ بازیوں کے خلاف سید حسن نصر اللہ کی زبان سے صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے تو عرب کے گیدڑوں کے ساتھ ساتھ صیہونی بھیڑیا بھی چیخ اٹھتا ہے۔
صیہونی بھیڑیے کی دھمکیاں آج سعودی عرب اور خلیج فارس تعاون کونسل کے منہ سے حزب اللہ کو دھشتگرد کہتے ہوئے سنائی دے رہی ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ صیہونیوں کی نجات اور مشرق وسطی میں امریکہ کے استعماری اور استکباری مفادات کے حصول کا واحد راستہ علاقے میں تشدد، جنگ و جدال اور قوموں کو آپس میں لڑانے میں منحصر ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ صیہونی حکام حالیہ دنوں اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے کہ اگر وہ لبنان پر حملہ کریں تو حزب اللہ کے میزائیل انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ شام میں بھی جو کچھ گزشتہ چار مہینوں سے دکھائی دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ سعودی عرب، امریکہ اور ترکی، روس، شام اور حزب اللہ کے ہاتھوں فی النار ہونے والے دہشتگردوں کے سوگ میں بیٹھے ہیں۔
صیہونی لابی، سعودی عرب اور مغرب کے لیے اسٹریٹیجک تعطل اس بات کا سبب بنا ہے کہ وہ اپنے اندر کا زہر اگلیں اور سعودی وزیر خارجہ اور دیگر عربی حکام تل ابیب میں پہنچ کر ماتھا ٹیکیں اور ان سے مدد مانگیں تاکہ وہ شام کے جنوبی علاقے میں دہشتگردوں کو اجل سے بچانے کے لیے کوئی حربہ استعمال کریں۔
مدتوں سے صیہونی حکام عربی ممالک کے ساتھ اسرائیل کے خفیہ روابط کو آشکار کرنے کے در پہ ہیں شمعون پیریز نے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا اور اس کے بعد نیتن یاہو اور محترمہ لیونی کہ جو خود اس کے بقول وہ بعض عرب حکام کے ساتھ جنسی روابط بھی رکھتی رہی ہے نے بھی اس بات کو دہرایا کہ ان کے عربی ممالک کے ساتھ اندرونی طور پر گہرے تعلقات ہیں۔
عرب کٹھ پتلی ممالک خاص طور پر سعودی عرب جو یمن، عراق، شام، لبنان حتی شمالی افریقہ تک دلدل میں پھنس چکا ہے کے موجودہ حالات اس بات کا باعث بنے ہیں کہ حتی صیہونی حکام عربوں کی فریاد رسی کے لیے شرائط مقرر کرتے ہیں۔ اس لیے کہ نیتن یاہو اور دیگر صیہونی شدت پسندوں نے بارہا کہا تھا کہ ہمیں عربوں کی فریاد رسی کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ہم مقبوضہ زمینیں فلسطینیوں کو لوٹانے والے ہیں۔
علاقے کی صورت حال نے سعودی حکام کی ایسی درگت بنا دی ہے کہ وہ اسلامی مقاومت کے خلاف اسرائیلی بولی بولنے پر مجبور ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ دہشتگردی کی حامی گلف کونسل تیونس کی بیٹھک میں عرب کی عزت و شرف (حزب اللہ)کو دہشتگرد ٹولے کا نام دے رہی ہے۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ وہ لوگ تکفیری دہشتگردوں کو شدت پسندی کے مخالف جانتے ہیں اور اسلامی و عربی تاریخ کی پروقار مقاومت کو دہشتگرد؟ جن کی گزشتہ اور حالیہ تاریخ میں کوئی ایک بھی سفید ورق نظر نہیں آتا۔ کیا شیر کو گیدڑ اور گیدڑ کو شیر کہنے سے شیر گیدڑ اور گیدڑ شیر ہو جائے گا؟
گزشتہ پانچ سالوں میں دسیوں ارب ڈالر سعودی عرب اور دیگر ضمیر فروش عربی حکام کی جانب سے مشرق وسطی میں جنگ کی آگ بھڑکانے اور بے گناہوں کا خون بہانے پر خرچ کئے گئے تاکہ مغربی استعمار اور صیہونی ریاست سے اپنی وفاداری کا مکمل ثبوت پیش کر سکیں۔ اور آج لبنان کو اسی آگ میں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اس ملک کے لوگوں کا چین و سکون بھی تاراج کریں اور علاقے میں ظلم کی ایک اور داستان قائم کر دیں۔
اگر سعودی حکمران ذرہ برابر بھی سیاست کی الف ب سے آشنا ہوتے اور ان دسیوں ارب ڈالر کا کچھ حصہ عربی ممالک کے غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرتے، بربادیوں کے بجائے علاقے میں آبادکاریاں کرتے، فلسطین کو فروخت کرنے کے بجائے مظلوم فلسطینیوں کا سہارا بنتے، اسلام اور عرب کے اصلی دشمن کو دوست نہ بناتے، مذہبی فرقہ واریت کو ہوا نہ دیتے اور تکفیریوں کو مسلمانوں اور اسلامی ملکوں کے گلے نہ ڈالتے تو آج علاقے میں عزت اور سربلندی سے جی رہے ہوتے۔
لیکن افسوس اور صد افسوس کہ حرمین شریفین کی خادمیت کا دم بھرنے والے آج ایک ایسے ڈرانے ہیولا میں تبدیل ہو چکے ہیں کہ خود اپنی رعایا پر بھی رحم نہیں کھاتے۔ وہ نہیں جانتے کہ اسرائیل اور مغربی استکبار کی حمایت سے اپنی موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کا انجام بھی وہی ہو گا جو دنیا کے دیگر امریکہ نواز صدام اور قذافی جیسے ڈکٹیٹروں کا ہوا۔