نئی دہلی/ولایت ٹائمزاسپیشل/رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی حیات ،آثار و افکار پر ہندوستان کی دارلحکومت میں منعقدہ دو روزہ قومی سیمنار میں ایران،کویت ،کنیڈا اور ہندوستان کیطبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے پروفیسر حضرات ،دانشوران،اسکالرز اور علمائے کرام کے علاوہ طلباو طالبات کی بڑی تعداد میں شرکت کی جس کے دوران مقررین نے آیت اللہ خامنہ ای کی شخصیت کو عالم اسلام کے لیے بہترین نمونہ عمل اور مسلمانوں کیلئے نعمت قرار دیا
’’ولایت ٹائمز‘‘ نے نقل کیا ہے کہ’’اشرف علی زیدی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق 2فروری 2019ء کوجامعہ ہمدرد ،مجلس علما ہند اور ولایت فاونڈیشن کی جانب سے منعقدہ افتتاحی تقریب میں استقبالیہ تقریر پیش کرتے ہوئے معروف دینی رہنما و مجلس علماہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید کلب جواد نقوی نے کہاکہ ہندوستان میں پہلی بار رہبر انقلاب اسلامی کی ذات اور کارناموں پر اس طرح کا سیمینار منعقد ہورہاہے جو باعث مسرت ہے۔ان شاء اللہ آیندہ بھی ایسے پروگرام منعقد ہوتے رہیں گے۔مولانانے کہاکہ اس پروگرام کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کیونکہ رہبر انقلاب کی شخصیت اور کارناموں سے ہندوستان کے عوام بہت کم واقف ہیں۔مولانانے مزید کہاکہ ایران دنیا کا سب سے زیادہ امن پسند ملک ہے مگر اسکے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں۔ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔آیت اللہ خامنہ ای کا پیغام ہمیشہ امن ،اتحاد اور اخوت کا رہاہے۔وہ تمام فرقوں ،مذاہب اور مسالک کے درمیان اتحاد کا پیغام دیتے ہیں۔مولانانے کہاکہ ایران ہندوستان کا سچا دوست ہے اور امریکہ و اسرایل ہمیشہ دوستی کے نام پر ڈسنے کا کام کرتیہیں اس لیے ہمارا ملک ان سے ہوشیار رہے۔
استقبالیہ تقریر کے بعد آیت اللہ خامنہ ای کی چالیس کتابوں کی رسم رونمائی عمل میںآئی۔
رسم رونمائی کے بعد ایرانی اسمبلی کے سابق اسپیکر غلام علی حداد عادل نے آیت اللہ خامنہ ای کی شخصیت اور کارناموں پر مفصل مقالہ پیش کیا۔انہوں نے ان نکات کی نشاندہی کی جن کی بنیاد پر ایران اور ہندوستان اپنے اقتصادی،فرہنگی اور ثقافتی تعلقات کو مزید فروغ دے سکتے ہیں۔انہوں نے بیان کیاکہ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی دلچسپی کی بنیاد پر ہی ہندوستان اور ایران کے درمیان تعلقات دن بہ دن مضبوط ہوتے جارہے ہیں اور مضبوط ہوتے رہینگے۔چابہار اور دیگر معاہدے اس بات کی دلیل ہیں۔
لکھنو کے معروف دینی رہنما مولانا سید حمیدالحسن تقوی نے اپنے خطاب میں کہاکہ ایران میں انقلاب اس لیے آیا تھا کیونکہ شہنشاہیت ،ملکوکیت اور بادشاہت نے روحانیت کو حقیر سمجھا تھا۔ایران میں اس وقت آزادی اظہار پر پابندی تھی لیکن آیت اللہ خمینی نے کبھی اس پابندی سے ڈر محسوس نہیں کیا۔وہ ہمیشہ ظلم کے خلاف مظلوموں کی حمایت میں بولتے رہے۔یہی روش رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی ہے اور اسی پر وہ قایم ہیں۔
مولانا سیدذکی باقری نے اپنے تقریر میں کہاکہ اگر آپ فقط دین یعنی نماز روزہ اور حج و زکات کی بات کرتے رہیں تو کوئی آپ سے سوال نہیں کرے گالیکن اگر بدعنوانی اور ظلم و آمریت کے خلاف بولیں گے تو لوگ آپ کے بارے میں ضرور پوچھیں گے کہ یہ کون ہے۔ایران نے ہمیشہ بدعنوانی اور ظلم کے خلاف عملی کردار پیش کیاہے اور مظلوموں کی حمایت کی ہے اس لئے عالمی طاقتیں انکے خلاف متحد ہیں اور پابندیاں لگارہی ہیں۔مولانانے کہاکہ ایران کے چاروں طرف ۸۰۰ سے زیادہ امریکی چھاونیاں ہیں پھربھی وہ کہتے ہیں کہ ایران سے خطرہ ہے۔کیونکہ ایران کا نظام الہی نظام ہے۔اس وقت پوری دنیا اللہ کا انکار کررہی ہے مگر ایران الہی نظام کی بات کررہاہے۔
اس تقریر کے بعد سونیر کا اجراعمل میں آیا۔اور مولانا مرزا عرفان علی نے آیت اللہ خامنہ ای کی شان میں بہترین اور جامع نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
کویت کے غلوم مصطفی عباس نے اپنی تقریر میں کہاکہ رہبر کی زندگی کو ایک کانفرنس کے ذریعہ اور ایک دن میں بیان کرپانا مشکل ہے تاہم مذکورہ 40کتابوں کا مطالعہ کیا جائے جس سے ان کی دور اندیش فکر سے آشنائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
ہندوستان میں ایران کے سفیر علی چگینی نے اپنی تقریر میں کہاکہ آیت اللہ خامنہ ای امن اور اتحاد کے داعی ہیں۔انہوں نے ہمیشہ دنیا بھر کے مظلوموں کی حمایت میں آواز بلند کی اور اتحاد بین المسلمین کا پیغام عام کیا۔ہندوستان میں رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے نمایندہ آیت اللہ مہدی مہدوی پورنے اپنی تقریر میں تمام معزز مہمانوں ،علما ،شعرااور مقالہ نگاروں کا شکریہ اداکرتے ہوے کہاکہ آیت اللہ خامنہ ای نے ہمیشہ ایران اور امت مسلمہ کی ترقی اور سربلندی کے لئے کام کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی امت اتحاد کے ساتھ کام کرے گی تو یقیناًترقی ان کے قدم چومے گی۔آج کا ایران چالیس سال پہلے کے ایران سے بالکل مختلف ہے۔ایران علمی،ساینسی اور اقتصادی میدان میں رہبر کی ذات کی بنیاد پر ترقی کر رہا ہے۔
آخر میں انہوں نے جامعہ ہمدرد ،مجلس علما ہند اور ولایت فاونڈیشن کا شکریہ بھی ادا کیا۔ پروگرام کے آخر میں جامعہ ہمدرد شعبہ اسلامیات کے صدر جناب یحیی انجام نے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکرتے ہوے کہاکہ کسی کی خدمات اور کارناموں کا اعتراف کرنا ایک بہترین عمل ہے۔اس کانفرنس کے ذریعہ شعبہ کی عزت میں بھی اضافہ ہواہے۔پروگرام کی نظامت کے فرائض اسیسٹنٹ پروفیسر جامعہ ہمدرد فضل الرحمان نے انجام دئے ۔
’’ولایت ٹائمز‘‘ کو ملی اطلاعات کے مطابق ہندوستان کی معروف دانشگاہ جامعہ ہمدرد نئی دہلی میں میں منعقد ہ سیمنار کے دوسرے روز معروف شخصیات نے خطاب کئے جبکہ مختلف دنشوران ،اسکالرز،پروفیسرحضرات اور علما نے آیت اللہ خامنہ ای کی زندگی سے متعلق اپنے مقالات پیش کیے۔س
یمنار کے پہلے سیشن میں مقالہ خوانی کے کئی پروگرام جامعہ ہمدرد کے تین مختلف آڈوٹوریم میں منعقد ہوئے۔ نماز ظہر کے بعد دورزہ سیمینار کا اختتام اجلاس جامعہ ہمدرد کے آرکاویو ہال میں ہوا۔
اجلاس کا آغازقاری طہ شاعری نے تلاوت قرآن کریم سے کیا۔اسکے بعد مولانا اظہر علی سانکھنوی نے نعت شریف پیش کی۔
پروگرام کی افتتاحی تقریر کرتے ہوئے معروف اہلسنت عالم دین مولانا شبیر علی وارثی نے کہاکہ آیت اللہ خامنہ ای نے قرآنی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے امت کو وحدت اور اخوت کی دعوت دی۔انہوں نے ہمیشہ حق کی حمایت کی اور کررہے ہیں جس کی بنیاد پر ایران آج تک مختلف قسم کی پابندیاں جھیل رہاہے۔انہوں نے ایران کو تعلیمی ،اقتصادی اور ساینسی میدان میں بہت ترقی دی۔
پروفیسر غلام یحیِ انجم صدر شعبہ اسلامیات جامعہ ہمدرد نے اپنی تقریر میں تمام معزز مہمانوں کا استقبال کیا اور اس سیمینار کے انعقاد پر دلی مسرت کا اظہار کیا۔انہوں نے کہاکہ آیندہ بھی جامعہ ہمدرد اس طرح کے پروگراموں کے لئے آمادہ ہے۔
حجۃ الاسلام آقای محمد رضا صالح نمایندہ جامعۃ المصطفی نے اپنی تقریر میں آیت اللہ خامنہ ای کے ان کارناموں کا تذکرہ کیا جن کی بنیاد پر آیت اللہ خامنہ ای نے تہذیب اسلامی کو تقویت بخشی اور مغربی کلچر کے مقابلے میں اسلامی تہذیب و تمدن کو فروغ دیا۔
ایران کے سابق اسمبلی اسپیکر ڈاکر حداد عادل نے آیت اللہ خامنہ کے ذاتی حالات و کوایف بیان کرتے ہوئے کہاکہ انکی زندگی ایران کے مڈل کلاس طبقے سے بھی زیادہ کم تر ہے۔انہوں نے کہاکہ آیت اللہ خامنہ ای کو ہندوستان سے شدید رغبت ہے کیونکہ ہندوستان نے بھی استعمار و سامراج کے خلاف مقاومت کی اور انقلاب لے آکر آیے۔ایران میں بھی سامراج کی حکومت تھی جسکے خلاف ایرانی عوام نے مقاومت کی اور انقلاب آیا۔انہوں نے مزید کہاکہ جب بھِی ہندوستانی وفود اور رہبران ایران جاکر ان سے ہندوستان آنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو آیت اللہ خامنہ ای یہی جواب دیتے ہیں کہ انکے لیے بیرون ایران کا سفر آسان نہیں ہے لیکن اگر کبھی ایران سے باہر جانے کا اتفاق ہوا تو وہ سب سے پہلے ہندوستان ہی جایں گے۔انہوں نے اپنی تقریرمیں مزید کہاکہ ایران کو پہچاننا ہوا تو اسکے دشمنوں کے ذریعہ پہچانو۔کیونکہ ہر چیز اپنی ضدسے پہچانی جاتی ہے۔آج استعمار شیعہ و سنی میں فساد کراکر اختلاف ایجاد کرنا چاہتاہے مگر آیت اللہ خامنہ کی کوششوں سے وہ اپنے منصوبوں میں ناکام ہوچکاہے۔چالیس سالوں سے سامراج مسلسل اسلام ،ایران اور آیت اللہ خامنہ ای کے خلاف سازشیں کررہاہے مگر اسکی ہر کوشش بیکار ہوکر رہ گی ہے۔
صدر جلسہ پروفیسر اخترالواسع نے اس سیمینار کے برگزار کرنے پر مجلس علما ہند ،جامعہ ہمدرد اور ولایت فاونڈیشن کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ جس طرح گزشتہ چالیس سالوں سے ایران کا حصار کیاگیاہے اس کے باوجود اس نے ہر میدان میں حیرت انگیز طورپر ترقی کی ہے اس کا سہرا آیت اللہ خامنہ ای کی ذات کو جاتاہے۔انہوں نے کہاکہ آیت اللہ خامنہ ای عالم اسلام کا سب سے روشن چہرہ ہے جو آفتاب کی طرح سب کو روشنی دے رہاہے۔آیت اللہ خامنہ ای نے اتحاد اسلامی اور فلسطین کی تحریک کو مضبوطی دینے کے لئے بہت اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔
ڈاکٹَر ظفرالاسلام خان چیرمین اقلیتی کمیشن دہلی نے اپنی تقریر میں کہاکہ تمام رکاوٹوں اور پابندیوں کے بعد بھی ایران نے جس طرح ہر میدان میں پیش رفت کی ہے وہ آیت اللہ خامنہ ای کی بنیاد پرہے۔انکی راے اور فتووں نے تاریخ کا رخ بدل دیاہے۔انہوں نے جوہر اسلحوں کی حرمت پر جو فتوی دیاہے وہ قابل قدر ہے جس نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیاہے۔ساتھ ہی انہوں نے مقدسات اہلسنت کے احترام کے لیے جو فتویٰ دیاہے اس نے شیعہ و سنیوں کے درمیان جو اختلافات تھے ان کو ختم کردیاہے۔فلسطین کے بارے میں انکا موقف بہت واضح اور قابل قدر ہے۔اگر ایران ملت فلسطین کی حمایت نہیں کرتا تو یہ تحریک کبھی کی ختم ہوچکی ہوتی۔
ڈاکٹر علی دہگاہی خانہ فرہنگ دہلی نو نے اپنی تقریر میں کہاکہ آیت اللہ خامنہ ای کی شخصیت کی بنیاد پر ہی ایران اور ہندوستان کے درمیان دن بہ دن تعلقات مزید بہتر ہوتے جارہے ہیں اور ان شااللہ یہ تعلقات تاریخ رقم کرینگے۔
ڈاکٹر علی محمد نقوی علی گڑھ نے اپنی تقریر میں آیت اللہ خامنہ ای کی ذات اور کارناموں کے مختلف پہلووں کو واضح کرتے ہوئے کہاکہ وہ یونان کے فلاسفر کنگ کی بولتی ہوی تصویر ہیں۔آیت اللہ خامنہ ای نے انقلاب سے پہلے ،انقلاب کی کامیابی کے بعد اور انقلاب کو دوام بخشنے کیلئے جو کردار اداکیاہے وہ سورج کی طرح روشن ہے اور اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔کسی بھی انقلاب سے پہلے نظام سازی کی ضرورت ہے اور وہ نظام سازی آیت اللہ خامنہ ای نے انجام دی جو اب تک ملک کو مزید ترقی عطا کررہے ہیں۔
پروگرام کے اختتام پر ’’آیت اللہ خامنہ ای اور اردو شاعری’’ کتاب کا رسم اجرا عمل میں آیا جسے مولانا مرزا اظہر عباس نے مرتب کیاہے۔ساتھ ماہنامہ میگزین ’’ لیڈر ’’ کی رونمای بھی عمل میں آیی۔
پروگرام کے آخر میں مولانا تقی حیدر چیرمین ولایت فاونڈیشن نے تمام مہمانوں،شرکا اور علماکا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے جامعہ ہمدرد کے ساتھ تمام مقالہ نگاروں اورتمام معاونین کا بھی شکریہ اداکیا۔
پروگرام میں ہندوستان بھر سے تشریف لاے ہوئے علما اور دانشور حضرات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔پروگرا میں نمایندہ محترم مقام معظم رہبری آیت اللہ مہدی مہدوی پور بھی شریک رہے اور تمام اداروں،جامعہ ہمدرد،شرکا اور مقالہ نگاروں کی کوششوں کو تہ دل سے سراہا اور سب کا شکریہ اداکیا۔
ولایت ٹائمز ڈاٹ کام