شہید محسن آج سے دو سال قبل پہلی مرتبہ شام میں رسول اللہ ؐ کی نواسی حضرت زینب بنت علی سلام اللہ علیھا کے حرم کی دفاع کیلئے جنگ پرجانا چاہتے تھے ۔ان کی شدید خواہش تھی اسلئے میرے ساتھ مشورہ کیااور میں نے کربلا کے شہید وہب کلبی کی ہمسر کو یاد کیا و قبول کرلیا۔ جانے سے دو ہفتے پہلے آپ نے روزے رکھے اور ہر روز مجلس پر جاتے کہ سفرپر جانے کیلئے کسی قسم کی مشکلات کا پیش نہ آئیں۔ انہوں نے جنگ پر جانے کیلئے منت مانگی ہوئی تھی کہ اپنے ماں باپ کے پاؤں کا بوسہ لیں گے۔
میں نے خواب دیکھا کہ اُن کو شہادت کا وعدہ دیا گیا تھا کہ صبر کریں وقت آنے پر شہادت نصیب ہو گی۔ اور میں بھی ان سے یہی کہتی تھی۔ میں نے ان کا سامان خود تیار کیا۔ ایک بیج بھی ان کی قمیض پر تھا خادم المہدی( عج) جوان کے کہنے پر میں نے ان کی قمیض پر لگایا۔ خود اپنا فوج کا لباس خرید کر لے کر گئے ۔میں نے خود ان کی اسیری کی خبر پڑھی اور باقی سب کو میں نے فون کر کے بتایا۔صبح خود ٹی وی پر تین بجے خبر دیکھی۔۔۔کہ شہادت محسن حججی شہید بے سر !! کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کو ایک شہید دوست انتخاب کرنا چاہیے محسن کے شہید دوست شہید کاظمی ہیں۔
میں بالکل بھی رونا نہیں چاہتی تھی کہ میرے اشکوں سے دشمن خوش ہو۔ میں جب بھی روتی ہوں حضرت زینب(س) کی اسیری کو یاد کر کے روتی ہوں۔
سبھی خواتین سے بس یہی گذارش ہے کہ کم از کم شہید کے خاندان کی دلجوئی کی خاطر ، اپنے حجاب کا خیال رکھیں۔ محسن نے اپنا سر قربان کردیا کہ آپکے سر سے یہ اسکارف اور چادر نہ اترے۔میں صرف اس لئے چاہتی ہوں کہ محسن کا بدن واپس آئے تاکہ ان کے ماں باپ کے دل کو سکون ملے ورنہ جن شہداء کے بدن واپس نہیں آتے مجھے یقیں ہے حضرت زہرا(س) ان سے ملنے جاتی ہیں۔
آخر میں یہی کہوں گی کہ خدا کی راہ میں اپنی سب سے پسندیدہ شئے قربان کرنے کا اجر عظیم ہیں اور اگر چاروں طرف اندھیرا کے سوا کچھ نظر نہ آئے در حقیقت خوبصورتی اور زیبائی کے علاوہ کچھ نہی ہوتا۔ حضرت زینب(س) کا جملہ’’مارایت الا جمیلا‘‘۔انشاء اللہ اپنے بیٹے کی تربیت بھی ایسی کروں گی کہ وہ بھی امام زمانہ (عج) کے مشن کیلئے دین مبین اسلام و انسانیت کی بقاء کیلئے اپنی زندگی صرف کرے۔