جموں/وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے وزارت روڈ پر واقع اَپنی سرکاری رہائش گاہ پر جموں کی سول سوسائٹی کے ممبروں کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جموں کی سول سوسائٹی کے ساتھ یہ ان کی پہلی ملاقات ہے۔اِسی طرح کی بات چیت 30؍ اکتوبر کو کشمیر میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ بھی ہوئی تھی۔اِس موقعہ پر نائب وزیر اعلیٰ سریندر کمار چودھری ، وزرأ محترمہ سکینہ اِیتو ، جاوید احمد رانا ، ستیش شرما ، وزیر اعلی کے مشیرناصر اسلم وانی نے بھی شرکت کی اور خطاب کیا . رَسائی سیشن کے دوران سول اور پولیس اِنتظامیہ کے سینئر اَفسران بھی موجود تھے۔اُنہوں نے اِس بات کا اعادہ کیا کہ اُن کی حکومت جموں وکشمیر کے تمام شہریوں کی نمائندگی کرتی ہے ،چاہے اُن کی سیاسی وابستگی کچھ بھی ہو۔ اُنہوں نے علاقائی تعصب کے خدشات کو دور کرتے ہوئے کہا ،’’یہ حکومت صرف اُن لوگوں کے لئے نہیں ہے جنہوں نے نیشنل کانفرنس کو ووٹ دیا۔ یہ جموں و کشمیر کے ہر شہری کی حکومت ہے۔ اِنتخابات کے بعد کچھ لوگوں کی جانب سے جموں کے جذبات سے کھیلنے اور علاقائی تقسیم کے معاملے پر آواز اُٹھانے کی کوششوں کے باوجود ہم نے مستقل طور پر شمولیت اور مساوات کو ترجیح دی ہے۔وزیراعلیٰ نے جموں سے نائب وزیر اعلیٰ کی تقرری کے اپنے دانستہ فیصلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جموں بھی کشمیر کی طرح اس حکومت کا اٹوٹ حصہ ہے۔اُنہوں نے دربارموئو کے بارے میں خدشات کو دور کرتے ہوئے اِس عزم کو دہرایا کہ حکومت اس روایت کو بحالی کرے گی۔ وزیراعلیٰ نے کہا،’’کچھ چیزوں کو صرف مالی لحاظ سے تولا نہیں جا سکتا۔ دربارموئو جموں و کشمیر کے اتحاد اور شمولیت کی علامت ہے۔ یہ ایک روایت ہے جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ حکمرانی دونوں خطوں کے لئے قابل رَسائی رہے۔‘‘اُنہوں نے اس 150 سال پرانی روایت کے خلاف مالی دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا رول صرف منافع پر توجہ مرکوز کرنا نہیں ہے۔ ہماری ذمہ داری تمام خطوں میں متوازن ترقی کو یقینی بنانا ہے۔ دربار موئواقدام کو ختم کرنے سے دونوں خطوں کے لوگ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوجائیں گے اور اس اِجتماعی اتحاد کو نقصان پہنچے گا جسے ہم برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اِس تقریب میں خواتین کی تنظیموں، غیر سرکاری تنظیموں، سابق فوجیوں، کشمیری پنڈتوں، تاجروں، ہوٹل مالکان، سیاحتی کھلاڑیوں، ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشنوں، مذہبی رہنماؤں، پنشنروں، سینئر لوک گلوکاروں، سکھ نمائندوں، آر ٹی آئی کارکنوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت شراکت داروںکے ایک متنوع گروپ نے شرکت کی۔وزیراعلیٰ نے بڑھتی ہوئی سیاحتی صنعت میں جموں کے محدود حصے پر تشویش کا اِظہار کیا اور خطے کی معیشت کو متنوع بنانے کے منصوبے پیش کئے۔اُنہوں نے کہا کہ سالانہ ایک کروڑ سے زیادہ یاتری ماتا ویشنو دیوی کا دورہ کرتے ہیں لیکن ہم نے ابھی تک جموں میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے اِس صلاحیت کا 15 فیصد بھی اِستعمال نہیں کیا ہے۔ اگر ہم ان یاتریوں کے ایک حصے کو ری ڈائریکٹ کر سکیں تو جموں کی معیشت بدل سکتی ہے۔وزیرا علیٰ نے سورج کنڈ میلے کی طرز پر ایک دستکاری اور ثقافت میلہ قائم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا جس کا مقصد خطے کے امیر ورثے کی نمائش اور سیاحت کو فروغ دینا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس اَقدام میں صنعتوں ، کسانوں ، ثقافتی نمائندوں اور سیاحتی شراکت داروںکے مابین تعاون شامل ہوگا۔اُنہوں نے بات چیت کے دوران اُٹھائے گئے کئی اہم مسائل پر روشنی ڈالی اور ان کے حل کے لئے اپنی حکومت کے عزم کا خاکہ پیش کیا۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ سمارٹ سٹی منصوبے تکمیل کے قریب ہیں اور اس حکومت کے پاس کسی بھی قسم کی اِصلاح کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن ہم جموں اور سری نگر کے لئے نئے اَقدامات کریں گے جس کا مقصد شہر کے بنیادی ڈھانچے کو جدید بنانا اور اِس کی قابل رہائش صلاحیت کو بڑھانا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ حکومت سکھ بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے والے سکولوں میں پنجابی اَساتذہ کی کمی کو دور کرے گی اور ان کے کچھ حقیقی مسائل کو دور کرے گی۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کشمیری پنڈت کمیونٹی کو درپیش چیلنجوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ان کی واپسی کمیونٹی میں تحفظ کے احساس کی بحالی پر منحصر ہے ، لیکن ہم ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے اور اُن کی شکایات کو دور کرنے کے لئے پُرعزم ہیں۔اُنہوں نے سول سوسائٹی کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کی ضرورت پر زور دیا۔ ماضی کے برعکس، جب اس طرح کی میٹنگوں کوصرف بحرانوں کے دوران طلب کی جاتی تھیں۔اُنہوں نے جموں و کشمیر کے دونوں خطوں میں ششماہی دو دو بار بات چیت کرنے کا عہد کیا۔وزیر اعلیٰ نے کہاکہ ہمارا مقصد آپ کے ساتھ مسلسل بات چیت جاری رکھنا ہے۔ اُنہوں نے یقین دلایا کہ ہماری اگلی میٹنگ میں ہم ایک ایکشن ٹیکن رپورٹ پیش کریں گے جس میں آج زیر بحث مسائل پر پیش رفت کا خاکہ پیش کیا جائے گا۔ اُنہوںنے ان کی دعوت قبول کرنے پر شرکأ کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح کی میٹنگوں کی اہمیت پر زور دیا تاکہ سرکاری حکام کو ان کے دفاتر کی چار دیواری کے باہر سے قیمتی آرأ مل سکیں۔اُنہوں نے کہا ،’’چاہے آپ کو ان ملاقاتوں سے فائدہ ہو یا نہ ہو، میں اور میرے ساتھی ضرور کرتے ہیں۔ یہ بات چیت ہمیں ہمارے کام اور حکمرانی کے بارے میں آپ کے خیالات کو براہ راست سننے کا موقع فراہم کرتی ہے۔‘‘وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اَپنے اِختتامی کلمات میں شرکأکی قیمتی بصیرت اور تجاویز پر اُن کا شکریہ اَدا کیا۔ اُنہوں نے کہا،’’ آپ کی رائے اور زمینی حقائق ہمیں اپنی حکمرانی کو بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جب ہم دوبارہ ملیں گے تو آپ جموں و کشمیر کی بہتر خدمت میں ہماری رہنمائی کرنے کے لئے اَپنی تعمیری رائے فراہم کرتے رہیں گے۔‘‘اِس موقعہ پر سول سوسائٹی کے ارکان نے اس اقدام کو سراہا اور اسے شفاف اور جامع حکمرانی کی جانب ایک قدم قرار دیا اور کہا کہ اِنتہائی ضروری بات چیت نے حکومت اور عوام کے درمیان تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔