تحریر:میر حسین
ولایت ٹائمز نیوز سرویس کشمیر
“مسلمانوں کی سب سے بڑی عید ،عید غدیر ہے” ۔ اس مبارک حدیث کے پیش نظر اس دن کی اہمیت کا اندازہ لگانا بعید از قیاس اور نظرہوگا۔مسلم دنیا کی سیاسی،سماجی، اقتصادی ،معاشرتی اور دیگر ہمہ جہت مستقبل کو زیر نظر رکھ کر ہی امت کے درد سے لبریز دہان مبارک امام صادق سے یہ کلمات جاری ہوئے ہوں گے۔ واقعا تاریخ سازیہ عید کافی اہمیت کا حامل دن ہے ۔دینی اور مسلکی اعتبار سے ماوراء اگر اس دن کو سیاسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو بہت سارے اہم مطالب سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔ اس دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے اپنے بعد حکم خدا سے ایک ایسے فرد کو منتخب کیا جو ہر لحاظ سے پائہ تکمیل تک پہنچ کر کمالات کی منزل چھو چکا تھا۔
گویا معلوم ہوتا ہے کہ عوام کی دینی اقتصادی سماجی اور سیاسی لحاظ سے نشو و نما اور توازن کے لئے ایک کامل انسان کا ہونا ضروری ہے ۔غدیر ولایی نظام حکومت کی تشکیل کا پلیٹ فارم فراہم کرنے کا دن ہے، غدیر سیاسی ہٹ دھرمی اور تخت و تاج کے ماروں کے سدباب کا دن ہے ،غدیر سے جو شفاف اور الہی سیاست کا روشن باب دکھائی دیتا ہے
وہ اقوام عالم کے حکمرانوں کے اس فکر کا دندان شکن جواب ہے جس میں وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت قائم کرنا ذمہ داری نہیں عہدہ ہے۔ غدیر ہمیں بار آور کراتا ہے کہ دین اور سیاست جدا نہیں ہیں بلکہ دین سے مربوط ہے۔ سیاسی نظام یا دینی سیاست ہی نجات کے متقاضی لوگوں کے لئے منجی کی حیثیت رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ غدیر سے آغاز ہونے والا خوبصورت اسلامی و الاہی نظام خاندان عصمت و طہارت سے ہی وابستہ رہا تاکہ عالمی بشریت کے کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرایا جا سکے کہ دنیا میں نظام الہی کا امکان فقط الہی شخصیت سے ہی ممکن ہے۔
ہیں متاع کون و مکان کو غدیر کہتے
چراغ خانہ جاں کو غدیر کہتے ہیں
موجودہ دور میں عالمی سطح کی سیاسی نظام پر اگر نظر دوڑائی جائے توولایت فقیہ جیسی فکر ناب کے بغیرکہیں پر عدل کی خکومت کی بو تک سونگھنے کو نہیں ملتی ۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ عدل کو عام کرنے کے لئے کامل عادل کی موجودگی نہایت ہی اہمیت کی حامل چیز ہے جس سے یہ سر زمین اگرچہ عاری نہیں ہے تاہم ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ ہر جگہ ظلم، غیرمتوازن اقتصادی نظام، حدود سے ماوراء آزادی اور دیگر مشکلات دکھائی دے رہے ہیں،استحصال کے نتیجہ میں میں سماج میں لوگوں کی زندگیوں کا توازن بگڑ گیا ہے غریب روزافزوں غریب تر جبکہ امیر روزبروز امیر ہوتا جا رہا ہے ایسا اس لیے ہے کیونکہ جو لوگ دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں وہ ولائی نظام کے قائل نہیں ہیں ۔غدیر کے پس منظر میں یہی درس پوشیدہ ہیں کہ سماج میں ٹھوس سیاسی نظام کو قائم کیا جائے تاکہ ہر سماجی مشکلات کے ساتھ ساتھ اقتصادی بد نظمی،اخلاقی بے راہ روی،تہذیبی و ثقافتی یلغار اور دیگر غیر منظم طریقہ کاروں کا ازالہ کیا جا سکے۔ غدیر ہمیں اس نظام کی دعوت دیتا ہے کہ جس میں اقدار الہی کی حامل شخصیت اور عدل خداوندی کے پرستار فرد کے ہاتھ میں طاقت ہو۔
غدیر سے ماخوذ سیاسی نظام کو اگر عوام الناس عملی میدان میں شکل دے کر جامہ پہناتے تو کسی صورت کربلا کا دل دہلانے والا واقعہ وجود میں نہ آتا ۔ کربلا کا سانحہ غدیر میں ولائی نظام حکومت کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ غدیرجیسے تاریخ ساز دن کو بھولنا مطلب سانحہ کربلا کو دعوت دینے کے مترادف ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ دن تو بنا ہی اس لئے تھا کہ عالم اسلام بالعموم اور دنیاوی نظام بالخصوص طور پر منظم کیا جائے۔ اس دن کی اہمیت کا اندازہ قرآن کریم کی سورہ مائدہ کی اس آیت سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں پروردگار عالم فرماتے ہیں کہ “
الیوم اکملت لکم دین کم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ آج کے دن دین کامل ہو گیا۔۔۔۔
گویا یوم غدیر دین اسلام میں ایک محور کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن سے جو محاسن اور افضلیت اخذ کی جا سکتی ہے وہ پوری بشریت کے لئے اکسیر کا کام کرے گی۔ غدیر ہر روز دہرایا جاتا ہے لیکن ہمیں شعور نہیں۔ دنیا کے کونے کونے میں غدیر کی معنویت دیکھی جاسکتی ہے لیکن پھر سے بھلائی جاتی ہے۔ آج بھی عالم اسلام اور مملکت ہا میں ایک دوسرے کو سرپرستی اور رہبریت کے اہم ترین عہدوں سے دستبردار کیا جاتا ہے یا غفلت کی گہری نیند میں سلایاجاتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ غدیر کے واقعہ کا نہ صرف احیا کیا جائے بلکہ عملی میدان میں دیگر سیاسی نظاموں کے نعم البدل کے بطور دنیا کے سامنے پیش کیا جائے ۔ خدارا اس عظیم دن اور نظام کو شادیوں اور دیگر رسموں کی نظر نہ کریں ۔غدیر ایک عملی چیز ہے اس کا منانا تب تک پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچے گا ،جب تک پوری دنیا میں نظام ولایت کا قیام ممکن نہ ہو۔
غدیر منانا بھی ہے کہ عملانا بھی۔
غدیر بھلانا نہیں کہ یہ پھیلانا بھی