جمہوری اسلامی ایران کا خاصا ہے کہ یہاں پر ولایت فقیہ کا نظام آفتاب کی طرح درخشان ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سی وہ چیزیں یہاں پر اس نظام کی برکت سے آسان ہو گئی ہیں جس کو لاگو کرنے میں باقی ماندہ اسلامی دنیا زمین آسمان ایک کر کے بھی ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ یعنی وہ قرآنی اوراسلامی افکار و فرہنگ جس کے اجرا کرنے میں رسول ؐ اور ان کے اہلبیتؑ نے کا فی مشقتیں کیں ہیں ۔
جاوید حسن دلنوی بارہ مولا کشمیر
جمہوری اسلامی ایران کا خاصا ہے کہ یہاں پر ولایت فقیہ کا نظام آفتاب کی طرح درخشان ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سی وہ چیزیں یہاں پر اس نظام کی برکت سے آسان ہو گئی ہیں جس کو لاگو کرنے میں باقی ماندہ اسلامی دنیا زمین آسمان ایک کر کے بھی ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ یعنی وہ قرآنی اوراسلامی افکار و فرہنگ جس کے اجرا کرنے میں رسول ؐ اور ان کے اہلبیتؑ نے کا فی مشقتیں کیں ہیں ۔
رسول (ص)و اہلبیت رسول (ع) نے خود کو زحمتوں میں ڈال کے دین اسلام کو سر بلند کیا ہے اور اللہ کی رضا کو ہر وقت مقدم رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ آج آپ دنیا میں اسلام کا بول بالا دیکھتے ہیں اور انشااللہ اسلام کا ہی آخر پر غلبہ ہوگا۔آپ خود اپنی زندگیوں میں ملاحضہ کر رہے ہیں کہ اگر چہ یورپ اور امریکہ میں دنیاکی تمام تر سہولیات میسر موجود ہیں تاہم وہاں پر انسان خوش نہیں ہیں اور روز افزوں خودکشی کر رہے ہیں۔اور سکون اور چین کی زندگی تلاش کر رہے ہیں بعض لوگ اسلام کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں اور سعی وتلاش کر کے انہیں حقیقی طور پر وہ مل جاتا ہیں جنکی طبعی طور پر ایک انسان کو تلاش ہوتی ہیں اور وہ یوں اسلام کو قبول کر کے مسلمان ہو جاتے ہین۔جہاں تک اسلامی فرہنگ کا تعلق ہے وہ یہ کی ہادیان اسلام نے روز اول سے یہ کوشش کی ہیں کہ دینا میں اسلام کا بال بالا ہو جائے اور تمام دنیا میں اسلامی فرہنگ کا اثر نفوز ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فرہنگی جنگ کو سب سے بڑا جنگ تصور کیا جاتا ہے۔ اور آج بھی دنیا مین فرہنگ جنگ کے عروج پے کھڑی ہیں۔ فرہنگی جنگ یعنی نرم جنگ یعنی سافٹ وار ، نرم جنگ اسے اس لئے کہا جا رہا ہے کیونکہ اس جنگ میں انسان کے وجود یعنی روح پر ضرب لگائی جاتی ہیں۔ روح کو مجروح کیا جاتا ہے ، یہ جنگ یورپ نے شروع کی ہیں اور اس جنگ کا خاتمہ یورپ میں ہی ہوگا ، وہ یہ کہ یورپ نے نرم جنگ کے حوالے سے بہت بڑا کا م کیا ہے ، یورپ نے اس حوالے سے کافی سارے نرم افزار بنائے ہیں مثال کے طور پرفیس بک، انسٹراگرام،ٹیلیگرام ،ٹیوٹر، وٹس اپ وغیرہ وغیرہ جیسے ایسے مضر چیزیں ایجاد کی ہیں جو براہ راست انسان کے روح پر وار کرتے ہیں اور خدا سے دور کر کے شیطان سے نزدیک تر کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے یورپ کے بیشتر جوان تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے اور کئی جوان خود سوزی کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ علم نفسیات یہ گردانتے ہین کہ یورپ میں خاندانی سسٹم کا وجود ختم ہوتا جاتا ہے اور آزادہی کے نام پر بی حیائی کے اڈے کھول کے یورپ نے خود کے پیر پر کلہاڑی مار دی ہیں۔ خاندان کی بربادی کی وجہ سے سے باپ اپنے بیٹے سے بیٹا اپنے باپ سے اور ماں اپنی بیٹی سے اور بیٹی اپنی ماں سے کوسوں دور چلی گئی ہیں اورتاریکی اور ظلمات کی زندگی میں غرق ہو گئے ہیں ۔ جمہوری اسلامی ایران نے اس حوالے سے کافی سارے کام اور انجام دئے ہیں اور دے رہا ہیں۔ اس نرم جنگ کے مدمقابل ایران کے دفاعی نظام کافی قوی اور مظبوط ہیں۔انقلاب سے پہلے ایران میں مسلمان تو تھے لیکن مغربی کلچر کے بے حد عادی ہوچکے تھے ، اور اب فاحشات اور عریانیت میں تو مغرب سے بھی دو قدم آگے جاچکے تھے۔ امام خمینی ؒ نے جو ں ہی انقلاب برپا کیا سب سے پہلا قدم میں انہوں نے اسلامی فرہنگ کو اجاگر کرنے کی بات کی اور خواتین کو چادرپہننے کی دعوت دی ، جو جو فرہنگی اعتبار سے امام کا کامیاب قدم مانا جاتا ہے۔ جو خواتین فاحشات میں غرق تھی انہوں نے یک دم اس کام کو قبول کیا۔ اگرچہ بہت سارے عیش پرست اس عمل کو قبول کرنے سے گھبرا گئے اور دلبرداشتہ ہو کر یورپ اور امریکہ چلے گئے۔ امام خمینی ؒ نے خواتین کو وہ سارے حقوق دے دئے جو انہیں اسلام کی جانب سے دئے گئے ہیں ، امام نے فرمایا کہ ایک خاتون ہر میدان میں کام کر سکتی ہیں خواہ وہ سیاست کا میدان ہو یا ٹیکنالوجی یا علمی اور سائنسی میدان ہو لیکن ان کے شرائط بھی ساتھ میں امام ؒ نے بیان کئے انہیں یہ کہ پردے میں اور حیا کے دائرے میں انجام دیں گے تو شرعی طور پر ان امور کا انجام دینے میں کوئی بھی قباحت نہیں ہیں۔ ایران نے قرآن مجید پر کافی کام ہوچکا ہے اور اسکے عنوانات پر کافی پیشرفت کر رہے ہیں۔ اندونی اور بیرونی دونوں طرح سے قرآن پر کا م ہو رہا ہے۔ ایک مرکزی ادارہ دارالقرآن کے نام سے تشکیل دیا گیا ہے جس کے تحت ملک بھر اور دنیا کے مختلف حصوں میں قرآنی سنٹر جگہ جگہ بنائے گئے ہیں۔ بین الاقوامی سیمینار ہر سال بڑے پیمانے پے یہاں پر منعقد کئے جاتے ہیں۔ جس میں ایران ہی پہلے نمبر پرپچھلے پانچ سال سے لگاتار براجمان ہیں جبکہ اسے پہلے مصر کے قاری پہلے نمبر پر اپنی ساخت بنائے ہوئے تھے۔ اسے پتا چلتا ہے کہ ایران نے کس قدر قرآنی دنیا میں پیشرفت کی ہیں۔ایک روز پاکستان کے معروف سکالر مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد جو پاکستان میں قرآنی علوم کے ماہر مانے جاتے ہیں اور پاکستان میں قرآن سے منسوب ایک بڑے ادارے کے بانی کار بھی تھے کہ جب ایران آئے تو انہیں یہاں کے امام جعفر صادق قرآنک انسٹیچوٹ میں دعوت دی گئی کہ انہو ں قرآن سے متعلق وہ کام دیکھے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا تھا اور پاکستان میں اپنے کام کو اس کے مقابلے میں سورج کو شمع دکھانے کے مترادف محسوس کیا اور بعد میں مرحوم نے اپنی ایک کتاب میں اس بات کا انکشاف کیا کہ دنیا میں ایران وہ واحد ملک ہیں جنہوں نے قرآن مجید کے بہت سارے موضوعات پر کام کیا ہیں ،۔قرآن مجید پر اتنا کام ہونے کے بعد ظاہر سی بات ہے کہ اس پر یہاں کے لوگوں پر براہ راست اثرپڑنا ہی تو ہیں ، خواتین ہو یا بچے ،جوان ہوں یا بوڑھے ہر طبقے پر ان کی زندگیوں پر اثر پڑ گیا ہے۔میڈیا کا بھی اس حوالے سے کا اہم رول ہیں کہ انہوں نے قرآن شناسی پر بہت ہی اچھا رول ادا کیا ہے۔اور خاص طور پر قرآن کا زیادہ اثر یہاں کے بچوں پر بہت زیادہ پڑ چکا ہیں۔ کئی سارے بچے حافظ کلام اللہ ہیں اور حفظ پر یہاں پر ایک اچھا خاصا کا م کیا جا رہا ہیں ، بس میں چڑے گے تو ایک جگہ پر خوبصورت خط میں آپ قرآنی آیت کو دیکھ سکتے ہیں۔ سفر کا آغاز یہ لوگ دور شریف سے کرتے ہیں اور سیٹ پر خود بیٹھنے کے بجائے دوسرے کو بیٹھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یوں ایرانیوں کے روزانہ کلام میں میں ذکر خدا اور دعائے خیرکا بول بالا ہے ، جیسے بارک اللہ، خدا را شکر ،بفرمائید(پہلے آپ وغیرہ)، نوش جان، خدا نگہداد، استغفراللہ،العفو،قربانت(میں آپ پر قربان)،سلامت باشید (سلامت رہو)وغیرہ جیسے ایک اسلامی فرہنگی الفاظ ہیں کہ دل کو راحت ہوتی ہیں اور ایک انسان امن اور سلامت کا احساس کرتا ہے ، اسلام کا ایک اور مظبوط اور قوی ترین فرہنگ مسجد کے عنوان سے ہیں جس میں ایران نے کا فی پیشرفت کی ہیں۔ایران وہ واحد ملک ہیں جس نے مسجدوں کو فقط عبادت کے لئے وقف نہیں رکھا ہے بلکہ مسجدوں کو یہاں پر اسلامی نرم جنگ کا ایک بہترین اور دفاعی ابزار کے طور پر مانا جاتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہیں کہ صدر اسلام مین رسول اللہ(ص) نے مسجدوں کو فقط عبادت کے لئے نہیں رکھا ہیں بلکہ اسے بنیادی فرہنگی مورچے کے طور پر استعمال میں لایا گیا۔اس میں جنگی اور دفاعی امور مسجد میں ہی انجام دئے جاتے تھے اور سیاست کا بہترین پلیٹ فارم مسجدیں ہی ہوا کرتیں تھیں۔ جمہوری اسلامی ایران نے بھی اسی اسلامی روش کو اپنا کر ولایت فقیہ کے نظام کو استحکام بخشا ہے۔ حتیٰ کہ یہاں پر پولنگ بوتھس میں بھی بیشتر مساجد استعمال میں لائی جاتی ہیں ، اس میں شک کرنے اور احتیاط برتنے کی بات نہیں ہیں ، اگر اسلام زندہ ہیں تو ہی تو آپ مسجد میں نماز پڑ سکتے ہیں اگر نہیں تو دشمن ان مسجدوں کو غیر اسلامی اور غیر شرعی فرہنگ میں تبدیل کرے گا۔ جس طرح سے کعبے میں بت رکھے گئے تھے اور ان بتوں سے کعبے کو آزاد کرنے کے لئے رسول اللہ (ص) کو بہت سارے انسانی جانے نچھاور کرنی پڑی۔ یہ اور بات ہے کہ آج پھر سے کعبہ بتوں کے حصار میں کھڑا ہے ۔ آج کے بت آل سعود کی شکل میں ہیں جو ان بتوں سے بہت زیادہ خطرناک ہیں جو کعبے کو بجائے اس کے کہ اسلام کے لئے استعمال میں لاتے خود کے لئے استعمال کرتے ہیں اور بہت ساری دولت کعبے کے ذریعے سے حاصل کرتے ہیں۔ حج ایک سیاسی پلیٹ فارم ہیں نہ کہ خالص سنت کو عمل میں لانے کا نام ہیں ۔حضرت ابراہیم(ع) نے باطل سے مبارزہ کر کے خانہ کعبہ کو آزاد کیا ہے۔ بتوں کو توڑا ہے۔آج کل حج کا موسم ہیں اور مسلمان حج ادا کرنے کی تیاری میں لگے ہیں ، لیکن واحد ایران ہے جنہوں نے حج کوایک بڑے سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنے کی بات کی ہیں ایران نے ہمیشہ کہا ہے کہ حج سے بڑا اسلامی فرہنگ ہیں جسے باطل کو دبوچا جاسکتا ہیں اور اسلامی نظام کو عروج دیا جاسکتا ہیں اور دنیا کے تمام مظلومین خصوصافلسطین کے مظلوموں کو اسرائیل کے ظلم و ستم سے آزاد کیا جاسکتا ہین۔ لیکن آل سعود جو ایک ایسی خاندانی رژیم ہیں جنہوں نے اپنے عیش پرستی کو محفوظ کرنے کے لیے اسرائیل اور امریکہ جیسے شیطانی قوتوں کے ساتھ ہاتھ ملایا ہوا ہیں۔(ولایت ٹائمز ڈاٹ کام)