دوحہ/سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے قطر نے انہیں غیر منصفانہ اور غیر قانونی قرار دے دیا۔ دورہ پیرس کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں قطری وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی کا کہنا تھا کہ ہمارے خارجہ امور سے متعلق معاملات پر بات چیت کا حق کسی کو حاصل نہیں۔ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے قطر پر دہشت گرد گروہوں کی معاونت کے الزامات پر شفاف بنیادوں پر مذاکرات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ قطر خلیجی ممالک کی سلامتی سے جڑے معاملات پر مل بیٹھ کر بات چیت کے لئے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لندن میں برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے کہا ہے کہ وہ رواں ہفتے کے دوران اپنے سعودی، کویتی اور اماراتی ہم منصب سے ملاقات کریں گے۔ برطانوی وزیر نے کہا کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ تمام فریق اس معاملے کو مزید بڑھانے سے گریز کریں اور ثالثی کی کوشش کا حصہ بنیں۔ موجودہ بحران کے دوران قطر کے تحمل کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تنازع کے حل کے لئے میں قطر کو مشورہ دوں گا کہ اپنے ہمسایہ ممالک کے تحفظات کو سنجیدگی سے لے۔ ان کا کہنا تھا کہ قطر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں برطانیہ کا شراکت دار ہے، تاہم دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے معاملے کے حل کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
قطر کی حمایت کے لئے یورپی ممالک کے دورے پر روانہ ہونے والے قطری وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کو اندازہ نہیں کہ قطر مخالف ردعمل کی وجہ کیا بنی، یہ ایران یا الجزیرہ کا معاملہ نہیں، اصل وجوہات کا ہمیں علم نہیں۔ تاہم انہوں نے کویت کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کا خیرمقدم کیا۔ دوسری جانب قطر ایئرویز نے اقوام متحدہ سے خلیجی ممالک کی جانب سے ایئرلائن کے بائیکاٹ کو غیر قانونی اور بین الاقوامی ہوائی مواصلات کے 1944ء کے کنونشن کی خلاف ورزی قرار دینے کا مطالبہ کر دیا۔ ایک انٹرویو میں قطر ایئرویز کے سربراہ اکبر البکر نے پابندی کو غیر قانونی بندش قرار دیا اور اقوام متحدہ کی سول ایوی ایشن برانچ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرے۔ واضح رہے کہ قطر ایئرویز نے چند سالوں میں دوحہ کو عالمی مرکز کی حیثیت پر پہنچا دیا تھا، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ خلیجی ممالک کی بندش ایئرلائن کی پوزیشن کو غیر مستحکم کرنے کا سبب بنے گی۔ ادھر قطر کی جانب سے عمان کی بندرگاہوں تک براہ راست سامان کی ترسیل کے آغاز کا اعلان بھی کیا گیا ہے، تاکہ خلیجی ممالک کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں سے نمٹا جاسکے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب نے قطر تک واحد زمینی راستے کو بند کرکے نہ صرف تازہ کھانے پینے کی اشیاء بلکہ 2022ء میں منعقد ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ منصوبے کی تکمیل کے لئے درکار خام مال کی درآمدات کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔