نئی دہلی/مجددالشریعۃ آیت اللہ العظمیٰ سید دلدار علی غفران مآب علیہ الرحمہ کی حیات اور خدمات پرمدرسۃ الواعظین لکھنؤ میں ایک روزہ بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد ہوا جس میں بیرون ہندوستان اور ملک بھر کے معروف مذہبی و علمی شخصیات نے شرکت کی۔ مقررین نے موصوف کی علمی خدمات کو سراہتے ہوئے ہندوستان کے قدیم علماء کے تحفظ اور بڑھاوا دینے پر زود یا۔
’’ولایت ٹائمز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق سیمینار بعنوان ’’ مکتب کلامی و فقہی لکھنؤ اور مجددالشریعۃ آیت اللہ سیددلدار علی غفران مآبؒ‘‘ پر منعقد ہوا ۔افتتاحی اجلاس کا آغاز قاری محمد الیاس نے تلاوت قرآن کریم سے کیاجس کے بعد حوزہ علمیہ حضرت دلدار علی غفران مآبؒ کے طلباء نے تواشیح پیش کی۔
پروگرام میں استقبالیہ تقریر کرتے ہوئے معروف عالم دین مولانا سید کلب جواد نقوی نے کہاکہ مقام مسرت ہے کہ لکھنؤ کی سرزمین پر ایسا عظیم الشان بین الاقوامی سیمینار منعقد ہورہاہے جس میں جلیل القدر علماء ،دانشواران اور محقق حضرات تشریف لائے ہیں۔ یہ بہت پہلے ہونا چاہئے تھا ،اور اب مسلسل ایسے سیمینار ہونے چاہئیں تاکہ ہندوستان کے بزرگ علماء کے آثار کا احیاء ہوسکے ۔مولانا نے کہاکہ غفرا نمآبؒ نے علم دین کے حصول کے لئے اس زمانے میں نجف اشرف کاسفرکیا کہ جب اس قدرسہولیات نہیں تھیں۔اس سفر کی اپنی عظمت ہےجس کے بعد انہوں نے ہندوستان واپس آکرمکتب تشیع کو نئی زندگی بخشی ۔مولانا نے کہاکہ غفران مآبؒ نے فرسودہ رسومات کا خاتمہ کیا اوردین کے نام پر جاری بدعات کے خلاف منظم تحریک شروع کی ۔مولانانے مختلف جید اور بزرگ علماء کے لکھے ہوئے تذکروں اور کتابوں کی روشنی میں غفرا نمآبؒ کی عظمت اور فضائل بیان کئے ۔خاص طور پر علامہ مفتی محمد قلی،علامہ غلام حسین کنتوری،علامہ میر حامد حسین ،مولانا محمد حسین نوگانوی اور مفتی محمد عباس شوستری جیسے علماء کی کتابوں کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے کہاکہ سب نے متفقہ طورپر لکھاہے کہ غفرا ن مآبؒ جیسا عالم اور فاضل پیدا نہیں ہوا۔
استقبالیہ تقریر کے بعد’’مکتب کلامی و فقہی لکھنؤ اور آیت اللہ سید دلدار علی غفرا ن مآبؒ ‘‘ کے موضوع پر ڈاکیومنٹری بھی پیش کی گئی ۔اسکےبعد مولانا جلال حیدر نقوی نے آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائیگانی مد ظلہ العالی کا پیغام پیش کیا جسے سامعین نے بغور سنا۔
صدارتی تقریرمیں ہند کیلئے نمائندہ ولی فقیہ آیت اللہ مہدی مہدوی پور نےکہاکہ یہ پہلی کانفرنس ہے جوخاندان غفران مآبؒ پر لکھنؤ میں منعقد ہورہی ہے ،اس طرح کی کانفرنسوں کے انعقاد کے لئے خود رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی نے حکم دیاہے اور وہ خود بھی سرزمین ہند اور خاص طورپر سرزمین لکھنؤ سے بہت ارادت رکھتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ رہبر معظم نے ہمیشہ بزرگ اور جید علماء کے آثار کے احیاء کی تاکید کی ہے اس سلسلے میں خاندان غفران مآبؒ ،خاندان عبقات ،خاندان مفتی محمد عباس شوستری ،خاندان نجم الملۃ اور خاندان باقرالعلوم ایک ہی شجرہ طیبہ سے ہیں اور اس شجرہ کی اصل آیت اللہ سید دلدار علی غفرا نمآبؒ ہیں۔انہوں نے کہا ابھی ہم ان بزرگ علماء کی پچاس کتابوں کا رسم اجرا کررہے ہیں ،ان کتابوں کی تحقیق و تدوین میں بہت مشکلات پیش آئی ہیں ۔ان شاء اللہ جلد ہی دبستان لکھنؤ کے دوسرے علماء اور انکے آثار کو بھی شائع کردیا جائے گا۔
بنیاد فرہنگی امامت کے مدیر عامل حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد تقی سبحانی نے اپنی تقریر میں کہاکہ ہم نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ جہاں بھی علماء نے نمایاں کام انجام دیاہے اس کا احیاء کیا جائے اس سلسلے میں ہم نے لکھنؤ کا انتخاب کیاکیونکہ لکھنؤ میں علماء کی تاریخ بہت روشن اور تابناک ہے ۔خاص طورپر خاندان اجتہاد کہ جس کے علماء اور شاگردوں نے ہندوستان میں شیعیت کو نئی جہت عطا کی ۔آیت اللہ سید دلدار علی غفران مآبؒ نے جس طرح مکتب تشیع کو فروغ دیا اور اپنے شاگردوں کی تربیت کی اسکی مثال نہیں ملتی ۔ان شاء اللہ آگے بھی ’’مکتب کلامی و فقہی لکھنؤ‘‘ پر تحقیقی کام جاری رہے گا۔
ڈاکٹر علی خان محمودآبادی نے اپنی تقریر میں کہاکہ مدرسۃ الواعظین کی بنیاد بھی اسی لئے رکھی گئی تھی تاکہ بزرگ علماء کے آثار کو محفوظ کرنے کے ساتھ ان کا احیاء بھی عمل میں آئے ۔انہوں نے کہاکہ نوجوان نسل کی تربیت بہت ضروری ہے تاکہ وہ مذہب ،ادب غر ضکہ ہر شعبہ ٔ زندگی میں اپنے بیش بہا خدمات پیش کرکے جس طرح حضرت غفرا نمآبؒ نے اپنی شاگردوں کی تربیت کی تھی اور انہوں نے ہر شعبہ زندگی میں نمایاں کردار ادا کیا۔
حجۃ الاسلام آقائی مہدی اسفند یاری نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ جن آثار کا احیاء عمل میں آیاہے اور جو پچاس سے زائد کتابوں کی رونمائی کی گئ ہے اس سلسلے میں جو زحمتیں پیش آئی ہیں ان کابیان کرنا بھی مشکل ہے ۔موجودہ محققین کے لئے آیت اللہ غفرا ن مآبؒ مکتب کلامی و فقہمی کے لحاظ سے عظیم مشعل راہ ہیں۔ہم نے آیت اللہ غفران مآبؒ کی تمام کتابوں پرتحقیقی کام کیاہے اور آئندہ بھی بہت جلد انکی بہت سی کتابیں شائع کی جائیں گی تاکہ پوری دنیا کو لکھنؤ کے اس علمی خانوادہ کے خدمات کا علم ہوسکے ۔
حجۃ الاسلام آقائی محمد رضا صالح نمائندہ جامعۃ المصطفی العالمیہ در ہند،نے تقریر کرتے ہوئے آیت اللہ غفرا نمآبؒ کی علمی اور فقہی زندگی کےچھ اہم نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ آیت اللہ غفران مآبؒ جیسی شخصیتیں بے نظیر اور کم ملتی ہیں ۔جامعۃ المصطفیٰ کے متعلقین ،اساتذہ اور طلاب کے علاوہ ایران کے جن اہم اداروں نے اس حوزہ لکھنؤ پر تحقیقی کارنامہ انجام دیاہے میں انکی قدردانی کرتاہوں اور ہرطرح کے تعاون کی یقین دہانی کراتاہوں۔
ڈاکٹر ماہ رخ مرزاوائس چانسلر خواجہ معین الدین عربی اردو فارسی یونیورسٹی نے اپنی تقریر میں کہاکہ ایسے سیمیناروں کی سخت ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل کو معلوم ہوکہ ان کا ماضی کس قدر شاندار اور تابناک رہاہے تاکہ وہ حال اور مستقبل کو بہتر کرسکیں۔
تمام تقاریر کے بعد مولانا سید کلب جواد نقوی نے اس کانفرنس کومنعقد کرنےمیں بھرپور تعاون پیش کرنے والے تمام اداروںمن جملہ موسسہ کتاب شناسی شیعہ،موسسہ معارف اہلبیتؑ،بنیادفرہنگی امامت،ولایت فائونڈیشن ،مجلس علماء ہند ،نورہدایت فائونڈیشن اور حوزہ علمیہ غفران مآبؒ کا شکریہ ادا کیا۔مولانا نے تمام مقالہ نگار حضرات،شریک علماء و طلباء و طالبات اور شہر و بیرون شہر کے تمام مدارس اور اداروں کا بھی شکریہ ادا کیا۔
پروگرام میں سوینیر کا اجراء بھی عمل میں آیا۔سیمینار کے دوران آیت اللہ غفران مآبؒ ،انکے مجتہد فرزندان اور شاگردوں کی پچاس سے زائد کتابوں کی رسم اجراء مولانا کلب جواد نقوی ،آیت اللہ مہدی مہدوی پور ،ڈاکٹر محمد تقی سبحانی ،آقائی مہدی اسفند یاری اور دیگر علماء کی موجودگی میں ادا کی گئی۔سیمینار کے افتتاحی اجلاس کی نظامت کےفرائض عادل فراز نے انجام دیے ۔اس افتتاحی اجلاس میں کثیر تعداد میں علماء کرام ،طلباء و طالبات اور مؤمنین کرام نے شرکت کی ۔
دوپہر کے بعد سیمنار کےدوسرے سیشن کاآغاز قاری مقداد حسین رسولپوری نے تلاوت کلام پاک سے کیا ۔اس سیشن میں مختلف مقالہ نگاروں نے اپنے مقالات پیش کئے ۔مقالہ خوانی کے پہلےسیشن کی صدارت مولانا محسن تقوی اور دوسرے شین کی صدارت مولانا حسین مہدی حسینی نے کی ۔تقریباََ ۱۵مقالہ نگاروں نےان دوسیشن میں اپنے مقالات پیش کئے ۔اس اجلاس میں ڈاکٹر رضا عباس اور ڈاکٹر اصغراعجاز نے نظامت کے فرائض انجام دیے ۔
سمینار کا اختامی اجلاس رات میں ۸ بجے شروع ہوا جس میں آیت اللہ مہدوی پور ،حجۃ الاسلام آقائی رضا مختاری اور مولانا کلب جواد نقوی نے ’’مکتب کلامی وفقہی لکھنؤ اورآیت اللہ سید دلدار علی غفران مآبؒ ‘‘ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ان شاء اللہ اب ایسے علمی سیمینار منعقد ہوتے رہینگے اور آئندہ اس سے بڑے پیمانے پر علماء کے آثار کا احیاء عمل میں آئے گا۔آخر میں نورہدایت فائونڈیشن کی جانب سے مولانا اسیف جائسی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
سیمینار میں حجۃ الاسلام آقائی ڈاکٹرفرید انصاری،حجۃ الاسلام آقائی روح اللہ کاظمی ،حجۃ الاسلام آقائی نجف آبادی ،حجۃ الاسلام آقائی ولی پور،حجۃ الاسلام آقائی فرج پور،حجۃ الاسلام آقائی رضا مختاری ،مولانا محمد جابرجوراسی مدیر ماہنامہ اصلاح ،حجۃ الاسلام مولانا پیغمبر عباس،مولانا شہوار حسین نقوی امروہوی،مولانا شمع محمد بہار،مولانا عالم مہدی زید پوری،مولانا صفی حیدر ،مولانا محمد میاں عابدی ،مولانا طیب رضا ،مولانا احمد مجلسی ،مولانا کوثر مجتبیٰ ،مولانا سعیدالحسن نقوی،مولانا وصی امام ،مولانا انوارلحسن اٹاوہ ،مولانا رضا حسین ،مولانا تسنیم مہدی ،ڈاکٹر علی اصغر عازی ،ڈاکٹر فیضان جعفر،مولانا رضا حیدر ،مولانا نثاراحمدزین پوری،مولانا اعجاز حیدر ،مولانا مصطفیٰ حسین نقوی اسیف جائسی ،مولانا سراج حسین ،مولاناا منظر عباس ،مولانا ممتاز جعفر،مولانا منورعباس،مولانا شمس الحسن ،ڈاکٹر حیدر مہدی،مولانا منظر صادق،تقی حیدر نقوی دہلی ،ڈاکٹر حیدر رضا ضابط دہلی،مولانا سید قمر حسنین دہلی،مولانا افروز مجتبیٰ دہلی،مولانا حیدر عباس ،مولانا محمد اسحاق،مولانا منظر علی عارفی اور دیگر علماء کرام نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔خاص طورپر جامعۃ الزھرا تنظیم المکاتب،مدرسۃ الزھرا غفران مآبؒ،مدرسہ زینبیہ ،جامعۃ الزہرا مفتی گنج ،جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب ،جامعہ ناظمیہ ،جامعہ سلطان المدارس،حوزہ علمیہ جامعۃ التبلیغ،حوزہ علمیہ حضرت غفر انمآبؒ اوردیگر مدارس و اداروں کے طلباء و متعلقین نے شرکت کی ۔