5 جون 2017ء کو سعودیہ، امارات، بحرین اور مصر نے خلیجی ریاست قطر کے ساتھ اپنے سفارتی و اقتصادی تعلقات منقطع کر لئے، اسی روز ان ممالک نے قطر کے ساتھ زمینی، فضائی اور سمندری رابطے بھی ختم کر دیئے۔ ان ممالک میں رہنے والے قطری شہریوں کو چودہ دنوں کی مہلت دی گئی کہ وہ اپنے وطن لوٹ جائیں۔ یمن جنگ میں قطری تعاون کو بھی ٹھکرا دیا گیا۔ ان اقدامات کے سبب قطر میں خوراک، تعمیراتی سامان اور افرادی قوت کے بحران کی سی کیفیت ہے۔ خلیج کے مختلف ممالک میں رہنے والے قطری شہری سفری مشکلات کا شکار ہیں، اسی طرح قطر کے راستے حجاز یا امارات جانے والے مسافر بھی پریشانیوں سے دوچار ہیں۔ عالمی برادری نے اس سفارتی مسئلے کو حل کرنے کے لئے اپنے تئیں کوششوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ کویت کے امیر سعودیہ، قطر اور امارات کا دورہ کر چکے ہیں، اسی طرح ترکی کے صدر طیب اردغان اور وزیراعظم نے قطر کو تنہا نہ چھوڑنے کا عندیہ دیا ہے۔ ایران نے بھی قطر کو اس مشکل کی گھڑی میں ہر ممکن امداد دینے کا وعدہ کیا ہے بلکہ قطر میں پیدا ہونے والے خوراک کے بحران سے نمٹنے کے لئے ایران کے پانچ جہاز قطر پہنچ چکے ہیں، اسی طرح 300 ٹن خوراک بحری راستے سے قطر پہنچائی جا رہی ہے۔ ترکی نے کسی بھی بیرونی خطرے سے نمٹنے کے لئے قطر میں ترک افواج کی تعیناتی کی منظوری دی ہے اور شنید ہے کہ ترک افواج کے کئی دستے قطر پہنچ چکے ہیں۔
روس، امریکہ اور دیگر کئی ممالک نے خلیجی ریاستوں پر اس معاملے کو مصالحت اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات مسلسل بدل رہے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ یہ بہت اچھا ہوا اور اس کا سبب میرا دورہ ریاض ہے، کبھی کہتے ہیں کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے قطر کے خلاف اس اقدام کی ضرورت تھی اور کبھی خلیجی ممالک کو دعوت دیتے ہیں کہ اپنے مسائل کے حل کے لئے اگر واشنگٹن کی خدمات درکار ہوں تو ہم حاضر ہیں۔ ہندوستان، پاکستان، سوڈان، عمان، اردن، ایتھوپیا، اریٹیرا اور دیگر کئی ایک ممالک نے فریقین کے ساتھ اچھے روابط ہونے کے سبب اس مسئلہ میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ، روس، جرمنی، فرانس اور دیگر بہت سے ممالک نے مذاکرات پر زور دیا ہے۔ بہرحال معاملہ فی الحال جوں کا توں ہے۔ قطری وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ قطر کسی صورت پسپائی اختیار نہیں کرے گا جبکہ 9 جون 2017ء4 کو سعودیہ، امارات، بحرین اور مصر کی جانب سے مشترکہ بیان میں 59 افراد اور 12 تنظیموں پر مشتمل دہشت گردوں کی ایک فہرست جاری کی گئی، جن میں اخوان المسلمین کے روحانی راہنما یوسف القرضاوی اور اٹھارہ معروف قطری شامل ہیں۔ دہشت گردوں یا ان کے حامیوں کی اس فہرست میں قطر چیریٹی کے نام سے کام کرنے والا ادارہ جو اقوام متحدہ کے بہت سے اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے، شیخ عیدالثانی کے نام سے کام کرنے والا خیراتی ادارہ، اسی طرح شیخ ثانی بن عبداللہ فاؤنڈیشن بھی شامل ہیں۔
قطر نے جمعہ کے روز اس فہرست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بے بنیاد فہرست ہے۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ نے اس فہرست پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ فقط اس فہرست کی پابند ہے، جو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے مرتب کی ہے، اس کے علاوہ ہم کسی فہرست کے پابند نہیں ہیں۔ ایمنیسٹی انڑنیشنل نے قطر کے محاصرے کو عالمی قوانین کے خلاف قرار دیا اور خلیجی ریاستوں پر زور دیا کہ اس محاصرے سے بہت سے انسانوں کی زندگیاں متاثر ہوں گی۔ یاد رہے کہ اس محاصرے اور پابندیوں کے نتیجے میں بہت سے خلیجی شہری اپنے پیاروں سے دور ہو جائیں گے، بہت سے افراد ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ سعودی اتحاد نے قطر کے نیوز نیٹ ورک الجزیرہ کو سرکاری حکم ناموں کے تحت امارات، سعودیہ، بحرین اور مصر میں بند کر دیا ہے۔ امارات، بحرین اور سعودیہ نے قطر کی حمایت میں سوشل میڈیا پر بات کرنے کو قابل سزا جرم قرار دیا ہے۔ سعودیہ میں تمام ہوٹلز کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ اپنے ہوٹلز اور کمروں میں اس امر کو یقینی بنائیں کہ وہاں الجزیرہ کی نشریات نہ دکھائی جائیں، ورنہ لاکھوں ریال جرمانہ اور لائسنس کی منسوخی یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ قطر کے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے اس خبر پر شدید ردعمل ظاہر کیا، جس کے مطابق آج یعنی 11 جون 2017ء4 کو چند قطری شہریوں کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکا گیا۔ NHRC کے سربراہ علی بن سمیخ المری نے اس اقدام کو مذہبی آزادی اور عالمی انسانی حقوق کے چارٹر کے خلاف کی شدید خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
قطر سعودیہ کی مشرقی سرحد پر واقعہ گیس کی دولت سے مالا مال ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ اسی سعودیہ کی جنوبی سرحد پر واقعہ نسبتاً ایک بڑا ملک گذشتہ دو برسوں سے جی سی سی ممالک کی جانب سے زمینی، فضائی اور سمندری محاصرے کے ساتھ ساتھ فضائی حملوں کا بھی شکار ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ قطر اور یمن میں کیا فرق ہے؟ اقوام عالم کا قطر کے معاملے پر واویلا اگرچہ درست ہے اور اس مسئلہ کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی کاوشیں خوش آئند ہیں، تاہم یہ سب آوازیں یمن کے معاملے پر کیوں دب جاتی ہیں۔؟ کیا یمنی انسان نہیں ہیں؟ کیا یمن میں لوگوں کو خوراک، پانی، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کی احتیاج نہیں ہے۔؟ کیا یمن میں مرنے والے ہزاروں بچے کسی اور مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں۔؟ آج ترکی، امریکہ، روس، ایران، جرمنی، فرانس، کویت، عمان، اردن، سوڈان، اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل قطر کے چند ایام پر مشتمل محاصرہ پر سراپا احتجاج ہیں اور مذاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنے پر زور دے رہے ہیں، تاہم گذشتہ دو برس سے جاری یمن کے محاصرے اور اس پر کی جانے والی بمباری پر سوائے ایران کے کوئی صدائے احتجاج بلند کرنے والا نہیں ہے۔ کیا یمنیوں کا یہی قصور ہے کہ ان کے پاس گیس اور تیل کے ذخائر موجود نہیں ہیں، جن سے دنیا کے دیگر ممالک کے مفادات وابستہ ہوں۔؟ کیا ان کا قصور یہی ہے کہ وہ غریب ہیں؟ کل جب لاکھوں یمنیوں کو حج کی سعادت سے محروم رکھا گیا تو کسی کو بھی مذہبی آزادی اور عالم انسانی حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزی نظر نہ آئی، تاہم آج چند قطری باشندے مسجد الحرام نہ جا سکے تو مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کی باتیں کی جانے لگیں۔ اگرچہ سعودی حکام کو ایسا کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ بیت اللہ تمام مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے، یہ کسی ایک ملک کی جاگیر نہیں۔
خدا کی لاٹھی یقیناً بے آواز ہے۔ ہم نے دیکھا کہ یمنی مسلمانوں کے خود مختاری اور حریت کے ساتھ زندگی گزارنے کے مطالبے کو ظلم و بربریت سے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ فرقہ واریت اور دہشت گردی کے الزامات لگا کر ان کی آزادی اور حریت کے ساتھ زندہ رہنے کی مقدس خواہش کو بدنما بنانے کی کوشش کی گئی۔ گذشتہ دو برسوں پر محیط خلیجی ممالک کے محاصرے اور فضائی حملوں کے سبب لاکھوں یمنی بے گھر ہیں، ہزاروں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، بچے، خواتین، بوڑھے نان جویں کو ترستے ہیں۔ پینے کو پانی دستیاب نہیں۔ قحط کا سماں ہے۔ ہسپتال اور بنیادی صحت کے مراکز جو خلیجی طیاروں کے حملوں سے بچ گئے ہیں، میں ادویات کی شدید قلت ہے۔ موسمی شدت، افلاس، انفراسٹکچر کی تباہی اور اس پر کہیں کسی شنوائی کا نہ ہونا، لیکن اقوام عالم تو ایک جانب مسلمان ریاستوں کے حکمرانوں کے کانوں پر بھی جوں تک نہیں رینگتی۔ کویت، ترکی، عمان، اردن، سعودیہ، امارات، بحرین، قطر، نائجیریا، مصر کس کس کا تذکرہ کیا جائے، سب اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں۔ کچھ عملاً حملہ آور ہیں تو کچھ اپنی خاموشی کے ذریعہ اس قتل و غارت اور ظلم و بربریت کا حصہ ہیں۔ میری نظر میں یہ ان مظلوموں کا خون ہے، جو خلیجی ممالک کے باہمی اختلاف کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس خون نے بہت سے تقدس ماب چہروں پر سے نقاب الٹ دیئے ہیں، بہت سے ممالک کی اصولی سیاست کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ اس خون نے اقوام عالم کو اور زندہ عالمی ضمیر نیز تاریخ انسانیت کو یہ بتایا ہے کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا، جب انسانی جان کی قیمت ریال اور ڈالر کے نسبت سے طے کی جاتی تھی۔ جہاں انسانیت کا منصب گیس کے ذخائر اور جی ڈی پی کی کثرت کے سبب دیا جاتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اس کو انسان سمجھا جاتا تھا، جس کی فی کس آمدن ایک لاکھ ڈالر سے اوپر تھی۔