کے گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔عدالت نے پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایات جاری کیں کہ وہ تمام پولیس افسران خاص طور پر ضلعی افسران (ڈی ایس پیز) اور اسٹیشن ہاوس افسران (ایس ایچ اوز) کو اس پابندی پر سختی سے عمل درآمد کا حکم جاری کریں۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے ڈویڑنل بینچ کے جسٹس دہراج سنگھ ٹھاکر اور جسٹس جاناک راج کوتوال نے ایڈووکیٹ پاریموکش سیتھ کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست پر فیصلہ سنایا۔پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ کچھ ریاستوں میں جاری مویشیوں کے گوشت کی فروخت سے معاشرے کے افراد کی مذہبی دل آزاری ہورہی ہے۔قانون میں مزید کہا گیا کہ رنبیر پینل کورڈ کی دفعہ 298 اے کے مطابق مویشیوں کو قتل کرنا اور دفعہ 298 بی کے تحت ایسے مویشیوں کا گوشت رکھنا بھی قابل سزا جرم ہے۔ریاستی ہائی کورٹ نے ایڈووکیٹ پاری موکش سیٹھ کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے وادی کشمیر میں گائے کے گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔ادھر جموںوکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے سیکشن 298Aاور 298Bآر پی سی کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بار ایسو سی ایشن کے مطابق ایڈوکیٹ پری موکش کی جانب سے مفاد عامہ کے تحت رٹ پٹیشن دائر کرنے اور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کی جانب سے بڑے گوشت پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کے خلاف بھی الگ سے رٹ پٹیشن دائر کی جائے گی ۔
اس دوران بڑے گوشت پر پابندی عائد کرنے کے خلاف وادی کے تمام مذہبی ،سیاسی، سماجی اور دیگر تنظیموں نے سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ ریاستی ہائی کورٹ کا فیصلہ یک طرفہ ہے ۔ 12ستمبر کو فقید المثال ہڑتال ہو ئی جس دوران کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپیں جبکہ پولیس نے شہر سرینگر میں قدغن نافذ کی ۔سبھی رہنماؤںنے یک زبان ہو کر فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہاکہ مذکورہ حکم سے اکثریتی مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ دریں اثنا مجلس اتحاد ملت نے اس سلسلے میں مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے کی خاطر تمام وابستہ دینی تنظیموں کے سربراہوں اور نمائندوں کی ایک ہنگامی نشست جماعت اسلامی جموں کشمیر کے مرکزی دفتر پر 12ستمبر کو دن طلب کی ہے۔ مجلس اتحاد ملت جموںوکشمیر نے مقامی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی کڑی الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہاکہ مجلس اتحاد ملت جموںوکشمیر ‘ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا پرزور مطالبہ کرتی ہے ۔
’’مفتی اعظم مفتی بشیر الدین احمد نے کہاکہ ”مسلمانوں پر اس طرح کی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی ۔ مفتی اعظم مفتی بشیر الدین احمد نے بڑے گوشت پر عائد پابندی کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے کہاکہ شرعی قوانین کے تحت ”مسلمانوں پر اس طرح کی پابند ی عائد نہیں کی جاسکتی ۔فیصلہ مسلمانوں کے دینی معاملات میں صریح مداخلت ہونے کے علاوہ اُن کے عقیدے کی نفی کے مانند ہے جس کو کوئی بھی باغیرت مسلمان برداشت نہیں کرسکتا ہے۔ حلال و حرام کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے اور کسی دوسرے ادارے ، عدالت یا شخص کو اس میں رد وبدل کرنے کا اختیار نہیں ہے‘‘۔
سیدعلی گیلانی نے کہا کہ اسلام میں حلال وحرام طے ہوچکا ہے اور دنیا کے کسی حکمران یا حکومت کو اس میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے اور دنیا کی کوئی طاقت قانون قدرت سے بالاتر نہیں ہے اور اﷲ کے بندوں کا یہ ایمانی تقاضا ہے کہ وہ اﷲ کے منکروں کے خلاف آواز بلند کرے۔انہوں نے کہا کہ متنازعہ عدالتی فیصلے کو ماننے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ یہ ہمارے دین اور ایمان کے منافی ہے، البتہ اس کے خلاف ہمارا احتجاج ہر حیثیت سے پُرامن اور پُروقار ہونا چاہیے، تاکہ دشمن کے درپردہ منصوبوں کو ناکام بنایا جاسکے اور اس کی چالوں کا سوجھ بوجھ کے ساتھ توڑ کیا جائے۔ ہمارا احتجاج کسی خاص فرقے یا کسی مذہب کے خلاف نہیں، بلکہ اُس عدالتی فیصلے کے خلاف ہے، جس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دل آزاری کی گئی ہے اور خوامخواہ ایک حساس معاملے کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ سیدعلی گیلانی نے ریاست میں قائم روائتی بھائی چارے اور یگانگت کی ہر قیمت پر حفاظت کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ایسی حرکت کسی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے، جو دوسروں کو تکلیف پہنچانے کی باعث بنتی ہو یا جس سے فرقہ دارانہ فساد بھڑکنے کا خدشہ پیدا ہوتا ہو۔
میر واعظ عمر فاروق نے ریاستی ہائی کورٹ کی جانب سے دئے گئے فیصلے کو انتہائی افسوسناک اور مداخلت فی الدین قرار دیتے ہوئے کہا کہ حلال و حرام کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے اور اسلامی شریعت کا قانون دنیا کی کسی بھی عدالت کے قانون اور حکم سے بالا تر ہے۔جموں کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست میں اس طرح کے عدالتی فیصلے نہ صرف یہاں کے عوام کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ اور توہین کے مترادف ہےں بلکہ اس قسم کے فیصلے ریاست کے خرمن امن میںآگ لگانے اور یہاں کے روایتی فرقہ وارانہ اور مذہبی رواداری کے ماحول کو درہم برہم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ا نہوں نے کہا کہ کشمیری عوام نے ہمیشہ اور ہر دور میں اقلیتی فرقے کے لوگوں کے حقوق کی پاسداری کی ہے لیکن RSSکی ایما پر کشمیر میں اس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو تباہ کرنے کےلئے مختلف سطحوں پر آئے روز جوگھناؤنے منصوبے ترتیب دئے جا رہے ہیں انہیں کسی بھی قیمت پر کامیاب نہیں ہو نے دیا جائے گا۔
’’انجمن شرعی شیعیان کے سربراہ اور جعفریہ سپریم کونسل آزاد جموں کشمیر کے سرپرست اعلیٰ حجة الاسلام والمسلمین آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے واضح کیا ہے کہ مسلمان حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حوالے سے قرآنی تعلیمات اور اسوۃ رسولﷺ کے سوا کسی اور قانون یا نظریے کے پابند نہیں بنائے جاسکتے۔ ریاستی ہائی کورٹ کی اس رولنگ کے پس پشت بھارت کی موجودہ حکومت کا عمل دخل ہے جو ہر معاملے میں ہندو فرقہ پرست جماعتRSS کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف عمل ہے۔آغا صاحب نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر میں جو کسی بھی طور پر بھارت کا قانونی حصہ نہیں میں گاؤکشی سے متعلق قانون کا نفاذ نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ یہاں کی مسلم اکثریت کے دینی تشخص اور عقائد کو للکارنے کے مترادف ہے۔
جموں کشمیر کاروا ن اسلامی کے امیر مولانا غلام رسول حامی نے عدالتی فیصلے کو مداخلت فی الدین قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان قرآن و سنت کو ہی پہلی ترجیح دیتے ہیں اور اُسی کو آپنا آئین مانتے ہیں جبکہ بعد میں ملکی قوانین پر عمل کرتے ہیں۔اسی لئے انہی قوانین کو اپنایا جاتا ہے جو قرآن و سنت کے خلاف نہ ہوں۔وقت آچکا ہے کہ مسلمان آپسی اتحاد قائم کر کے آر ایس ایس کے مسلم کش ایجنڈے کیخلاف مل کر آواز اُٹھائیں۔
جمعیة اہل حدیث جموں کشمیر کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر عبداللطیف الکندی نے کہا ہے کہ گائے،بھینس اور ایسے ہی دوسرے جانوروںکے گوشت پر پابندی عائد کرنے کے احکامات راست طور پر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا ہے۔ مسلمان اپنے دین کے خلاف ایسے کسی بھی احکام کو قبول نہیں کریں گے۔ ڈاکٹر الکندی نے کہا کہ جموں کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں ایسے قوانین نافذ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان اپنے اللہ اور اسکے آخری نبی ﷺ کے فرمودات پر عمل پیرا ہونے کےلئے کوئی بھی قیمت دے سکتے ہیں۔
لبریشن فرنٹ کے چیرمین محمد یاسین ملک نے کہا کہ جموں کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور مسلمان حلال و حرام کے بارے میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے فرمان کے تابع ہیں۔ ایسی ریاست میں کسی بھی ایسے قانون کا نفاذ کرنا صریحاً مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرکے یہاں کی مذہبی رواداری کو ختم کرکے یہاں لوگوں کو باہم برسرپیکار کرنا ہے۔ یاسین ملک نے کہا کہ آج کا یہ تازہ فرمان اُن لوگوں کےلئے بھی تازیانہ¿ عبرت ہے جو بھارت کو ایک سیکولر ملک تصور کرتے ہیں جہاں سبھی مذاہب کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی اجازت ہے۔
جموں کشمیر اتحاد المسلمین کے صدر مولانا مسرور عباس انصاری نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی والاخطہ ہے اور کسی بھی فاضل عدالت کو کسی حساس اور غیر معمولی مذہبی معاملے پر فیصلہ سناتے وقت مسلمانوں کی شریعت اور اس فیصلہ کے نتائج و عواقب کی جانب توجہ کرنی چاہئے۔ ریاست میں گائے ذبح کرنے اور اس کا گوشت فروخت کرنے پر پابندی عائد کرنا محض ایک قانونی مسئلہ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کے لئے حلال و حرام کا تعین کرنے کے مترادف ہے اور قرآن و سنت کے علاوہ کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ مسلمانوں کے لئے حلال و حرام کا تعین کرے چاہے دنیا کی سب سے بڑی کوئی فاضل عدالت ہی کیوں نہ ہو۔ شراب اور سود خوری جیسی اشیاءکو اسلام نے قطعی طور حرام قرار دیا ہے اور ہر مذہب میں بھی ان اشیاءسے نفرت کی جاتی ہے لیکن کشمیر میں ہماری بار بار کی مانگوں کے باوجود بھی ان چیزوں کو کھلے عام چھوٹ دی جارہی ہے۔
بڑے گوشت پر عائد پابندی کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے جموں کشمیر شیعہ ایسو سی ایشن کے صدر مولوی عمران رضا انصاری نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کی جانب سے ریاست میں گائے کے گوشت کی فروخت پر عائد پابندی کا چلینج سپریم کورٹ میں کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پابندی جموں و کشمیر کی ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کے خلاف ہےاور حکومت کو یقینی طور پر اسے منسوخ کرنا چاہیے۔بڑے گوشت پر عائد پابندی بلاجواز ہے ۔مہاراجہ کےدورکے بعد جموں و کشمیر میںکبھی بھی گوشت پر پابندی عائد نہیں لگا دی ہے ۔
سرینگر میں دارالعلوم دیوبند رکن شوری ٰ مولوی رحمت اللہ قاسمی کی صدارت میں علمائے دیوبند کاایک اجلاس منعقد ہواجس میں بڑے گوشت یعنی بیف پر پابندی کی خبر پر سخت تشویش کااظہار کیاگیا۔اجلاس میں علمائے دیوبند نے اس بات کوزور دے کر واضح کیاکہ خالق کائنات کی طرف سے حلال کردہ کسی بھی چیزکوکوئی بھی طاقت یاادارہ یاقوم حرام نہیں کرسکتی۔اجلاس میں متفقہ طور علمائے دیوبند نے ریاستی اسمبلی میں موجود مسلم ممبران سے تاکیداًکہاکہ وہ اپنے ایمانی تقاضوں کے مطابق پارٹی سطح سے بالاتر ہوکراس قانون کولازماً منسوخ کرائیںاور اس بارے میں کسی بھی بے غیرتی کاشکار نہ ہو۔
سابق وزیر و نیشنل کانفرنس کے ترجمان اعلیٰ آغا سید روح اللہ مہدی نے کہا ہے کہ عدالت عالیہ نے8ستمبر2015کو اپنے عبوری حکمنامے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ آنریبل ہائی کورٹ کے جموں بنچ میں دائر مفادِ عامہ زیر نمبر24پر مفتی حکومت کی طرف سے معقول اور مناسبجواب نہیں دیا گیا ہے۔نیشنل کانفرنس یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کرتی ہے کہ اس معاملے سے موجودہ تشویشناک صورتحال کو مزید ہوا دی گئی ہے اور اس سے اکثریتی طبقہ کے جذبات کو بری طرح سے ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر نے سیکولر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات جوڑے ہیں نہ کہ ایک فرقہ پرست ملک کے ساتھ۔آغا روح اللہ نے کہا کہ بھارت جیسے کثیرالمذہبی ملک میں ہر ایک طبقہ کے مذہبی عقائد کااحترام اورتحفظ دیا جانا چاہئے، جس کا اندراج آئین کی دفعہ25میںہے، ایسے معاملات جنہیں مذہبی عقائد کے تحت مقرر کیا گیا ہو، میں ریاست یا ملک کی طرف سے بے جا مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔نیشنل کانفرنس قانون اور آئینی ماہرین کے ساتھ رنبیر پینل کوڈ (RPC)میں مناسب ترمیم کیلئے صلاح و مشورے کرنے جارہی ہے تا کہ مستقبل میں ایسی صورتحال دوبارہ اُبھر کر سامنے نہ آئے۔
نعیم احمد خان نے لوگوں سے پھر اپیل کی کہ وہ مذکورہ عدالتی فیصلے کو ٹھکراتے ہوئے آنے والی عید الاضحی کے موقع پر زیادہ سے زیادہ بڑے جانوروں کی قربانی انجام دیں۔ انہوں نے کہا کہ قربانی تو ایک دینی فریضہ ہے ہی اب لوگوں کو چاہئے کہ وہ غیر اسلامی عدالتی فیصلے کیخلاف اقدامات سے دُہرا ثواب حاصل کریں اور گائے جیسے بڑے جانوروں کی قربانیاں زیادہ سے زیادہ انجام دیں“۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے مسلمانان جموں کشمیر کیخلاف اپنی تہذیبی جارحیت میں شدت لائی ہے اور حالیہ عدالتی فیصلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
کشمیر اکنامک الائنس کے سینئرنائب چیئرمین فاروق احمد دار نے کہا کہ ایک سازش کے تحت جموں کشمیر مین تناؤ اور خوف جیسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ریاستی مسلمان آر ایس ایس کا ایجنڈا جموں کشمیر میں رائج کرنے کی اجازت نہیںدینگئے اور نہ کس بھی فرد کو مسلمانوں کے دینی معاملات میں مداخلت کی اجازت دینگے۔
مسلم ایکشن کمےٹی کے صدر محمدشریف سرتاج نے ریاستی ہائی کورٹ کے اسلام مخالف فےصلے پر سخت ردِ عمل ظاہرکرتے ہوئے اس فےصلے کو کے دینی جزبات سے کھلواڑ کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی جانب سے مداخلت فی الدین کے ارتکاب کی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں ۔ جموں کشمیر جیسے مسلم اکثریتی علاقے میں بڑے گوشت پر پابندی عائد کردینے کا مطلب صرف اور صرف مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا کرانہےں پشت بہ دےوار کرنا ہے۔ مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقدس آسمانی کتاب قران کرےم میں حلال و حرام کی تمیز و تفریق بالکل واضح کررکھی ہے اور جس چےز کو اللہ اور اس کے رسول نے حلال قرار دے رکھا ہوا ُسے مسلمان کسی عدالت ےا حکومتی فیصلے یا حکم نامے کی بناءپر اپنے اوپرحرام قرار نہےں دے سکتے۔
ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نائب چیئرمین حاجی بشیر احمد گنائی نے بڑے حلال جانوروں پر عدالتی پابندی کو قانون قدرت کی شرمناک خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے حیرت انگیز لہجے میں کہا ہے کہ اگر بڑا گوشت پچھلے کئی دہائیوں سے پہلے رنبیر پینل کورڑ میں قانون موجود ہے تو نےا قانون اجراءکرنا کےا معنیٰ اور مقصد رکھتا ہے ۔