معصوم زینب!ظلم کے ہر ٹھکانے کو مٹانے کی گھڑی آئی

زینب کے ساتھ زیادتی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ وسیع تر بگاڑ کی ایک تصویر ہے ۔اس لئے ضروری ہے کہ اس قسم کے واقعات کو انصاف دلوانے کے لئے وسیع تر اصلاح کے عظیم تر منصوبے پر کام شروع کیا جائے۔زینب توزیادتی کے بعد سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئی مگر اُس کی چیخیں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ بے غیرت قوم کو بھی مرنے کے دم تک تعاقب کرے گی۔اگر ہم عوام مفاد پرست سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کے معاملات میں دلچسپی لینے کے بجائے اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کرے تو زینب جیسے واقعات پر کسی طرح روک لگ سکتی ہیں اور اگر ہم اپنی اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کر گئے تو ہم آئندہ بھی صرف یہی سوال پوچھتے رہینگے کہ آخر زینب کا قصور کیا تھا پھر میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم نے اپنی اپنی ذمہ داریوں سے علاحدگی اختیار کر کے خاموشی اختیار کر لی تو معاشرے میں درند صفت لوگ پنپتے رہے گے اور پورا معاشرہ ظلم کی اس آگ میں خود کو بھسم کرتا ہوا محسوس کرنے لگے گا۔

معصوم زینب!ظلم کے ہر ٹھکانے کو مٹانے کی گھڑی آئی
میں یہ سب کس کے نام لکھوں جو یہ الم گزر رہے ہیں
سارے لوگ جوبے غیرت ہے انسانیت بھی مرگئی ہے
تحریر:میر عترت حیدری
میں یہ سوچ رہاہوں کہ ہم صدیوں سے انسانیت کو شرمسار کر دینے والے واقعات پر مذمت کرتے آرہے ہیں لیکن افسوس کہ ہم ہر بار قصوروار درندوں کو انجام تک پہونچا نے میں ناکام ہی رہتے ہیں۔قصور کی بے قصور زینب جو گھر سے قرآن پاک سیکھنے کے لئے نکلی تھی ۔قیامت کے دن ہم سے ضرور سوال کرے گی کہ وہ کس گناہ کے باعث مار دی گئی۔قصور میں اس سے پہلے بھی 14 بچیاں مار دی گئی اور مجرموں کو پکڑ کر عدالت میں پیش کرنے کے باوجود بھی کوئی سزامقررنہیں ہوئی۔بااثر مجرموں کو اگر پولیس پکڑتی بھی ہے تو وہ پولیس کو ڈرادھمکا کر کیس واپس لینے پر مجبور کر دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسے سانحات ماضی میں بھی ہوتے آئے ہیں اور اس بے غیرت معاشرے میں اس قسم کے واقعات اور ہو جائینگے اس میں بھی شک کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ۔کیوں کہ جس معاشرے میں بھی انصاف کا دامن لٹیروں اور درندوں کے ہاتھوں میں دیا جائے گا وہاں اس قسم کے بے شرم واقعات ہونا لازم ہیں۔حکمران اپنے معاملات میں مست ہیں وہ مجرموں کا تعاقب کرنے کے بجائے ان جرائم پیشہ عناصر کو مبینہ طور پر بحثیت اپنے ووٹرز تحفظ فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ زینب جیسی لاکھوں بیٹیوں کے ملزمان اب بھی آزاد ہیں اور جو قید ہیں وہ کسی بھی وقت کمزور مقدمات کی وجہ سے آزاد ہوجائیں گے۔
قصور میں سات سالہ معصوم زینب زیادتی کے بعد قتل کر دی گئی ہے درحقیقت یہ صرف زینب کا قتل نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہے ۔یہ شرم و حیا کا قتل ہے ، عقل و شعور کا قتل ہے ، عدل و انصاف کا قتل ہے جو مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ آخر سات سالہ معصوم کلی کے ظلم کے خلاف ہم دیوار بن کر کھڑے کیوں نہیں ہو سکتے۔اگر عدالتیں مجرموں کو پکڑ کر سزا نہیں دے سکتی تو کیا ہم بھی بے غیرت سماج میں رہ کر خاموشی اختیار کر کے بے غیرت بن سکتے ہیں۔ہرگز نہیں!ہم معاشرے کے ہر بگاڑ کو انسانیت کے دائرے میں رہ کر اتحاد کے ذریعے ختم کر سکتے ہیں۔اگر ہم ماضی کی طرح اس واقعے پر بھی صرف مذمت ہی کرتے رہے تو پھروہ دن دور نہیں کہ جب ہم اس معصوم بچی کوبھی بھول جائینگے اور پھرہم بھی بے غیرت ہوکر حکمرانوں کے کسی سیاسی جلسے میں ناچ گانے کرتے ہوئے نظر آئینگے ۔کیوں کہ جس قوم میں ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی وہ قوم ڈوب جاتی ہیں اور پھر اللہ بھی قیامت تک اس قوم کی حالت نہیں بدل دیتے۔بے غیرت انتظامیہ اس حد تک گر چکی ہیں کہ CCTV فوٹیج ملنے کے باوجود بھی وہ قاتل کو تلاش نہ کر سکی ۔زینب جو CCTV فوٹیج میں سڑک پر ایک مرد کی انگلی پکڑ کر جارہی تھی اُسے کیا معلوم تھا کہ یہ انسان نہیں ، بلکہ ایک درندہ ہے ،اُسے کہا معلوم تھا کہ وہ اس ننھے سے پھول کو اپنی حوس کا نشانہ بنانے کے بعد کچرے کے ڈھیر میں پھینک دے گا۔زینب کے گھر والوں پر گزرنے والی قیامت کا اندازہ ہر وہ شخص لگا سکتا ہے جس کے سینے میں دل دھڑکتا ہے اور جو درد کو محسوس کرتا ہو۔میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے واقعات کسی بھی حال میں فراموش نہیں کئے جاسکتے۔سماجی رویوں میں ابتری اور بچوں کے علاوہ تمام کمزور طبقات کے تحفظ سے لاپرواہی تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں درند صفت لوگوں کی نگرانی اور جرم سے پہلے ہی ان کی گرفت کا اہتمام ہوسکے۔زینب کے ساتھ زیادتی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ وسیع تر بگاڑ کی ایک تصویر ہے ۔اس لئے ضروری ہے کہ اس قسم کے واقعات کو انصاف دلوانے کے لئے وسیع تر اصلاح کے عظیم تر منصوبے پر کام شروع کیا جائے۔زینب توزیادتی کے بعد سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئی مگر اُس کی چیخیں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ بے غیرت قوم کو بھی مرنے کے دم تک تعاقب کرے گی۔اگر ہم عوام مفاد پرست سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کے معاملات میں دلچسپی لینے کے بجائے اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کرے تو زینب جیسے واقعات پر کسی طرح روک لگ سکتی ہیں اور اگر ہم اپنی اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کر گئے تو ہم آئندہ بھی صرف یہی سوال پوچھتے رہینگے کہ آخر زینب کا قصور کیا تھا پھر میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم نے اپنی اپنی ذمہ داریوں سے علاحدگی اختیار کر کے خاموشی اختیار کر لی تو معاشرے میں درند صفت لوگ پنپتے رہے گے اور پورا معاشرہ ظلم کی اس آگ میں خود کو بھسم کرتا ہوا محسوس کرنے لگے گا۔والسلام!
توجہ طلب: میر عترت حیدریؔ باغوان پورہ لال بازار سری نگر