کتنے ایسے ماں باپ بھی ہے جن کو کوئی بڑی بیماری نہیں ہے۔اگر اُن کو کوئی بڑی بیماری ہے وہ یہی ہے کہ اولاد اُن کا حال نہیں پوچھتے ہیں،اس نے اُن کو زمین بوستہ کر دیا ہے،اس نے اُن کی کمرجُکادی ہے،اس نے اُن کو ناتوان کردیاہے۔بہت سارے ماں باپ جو لاٹھی کے سہارے چلتے ہیں اگر اُن کا حقیقی سہارا مل جائے تو وہ لاٹھی کاسہارا چھوڑ کے اولاد کی انگلی کے سہارے چلنا پسند کریں گے۔وہ نعمت جو ہم سے چھینی جا رہی ہے اُس مغربی تہذیب کے نتیجے میں وہ یہی خاندانی Values ہے۔مغربی تہذیب نے ماں باپ کو نوکر بنا ڈالا۔اس تہذیب نے ہماری بنیادیں ہلاڈالی کہ جو خاندانی قدریں تھیں وہ کم ہوتی گئی۔خوش قسمت ہے وہ لوگ جن کو ربّ کریم نے یہ توفیق دی ہے کہ اپنی زندگی میں وہ ماں باپ کی خدمت کر سکیں۔
تحریر :غلام محمد ملہ(یال کنزر) کشمیر
اب ہر مشکل سفر آسان لگتا ہے
شاید یہ میری ماں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے
خدا وندِ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ تمہارے رب کا فیصلہ ہے کہ اﷲ کے سوا کسی کی بندگی و عبادت مت کرو۔ جہاں پر اﷲ کی خالصانہ بندگی کرنی ہے وہاں پر والدین کی یاد دِلائی ہے خدا کے بعد۔ اور ساتھ ہی قران مجید نے اس اندازسے مقام والدین ذکر کیا ہے ! یہ ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہاری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائے اور جب یہ بڑھاپے کو پہنچ جائے اُنہیں اُف تک مت کرو ’’ولاتقولولہما اُفٍِِ‘‘ اُف تک کی اجازت نہیں ہے تمہیں ، بلکہ اُن کے لئے ہمیشہ خدا سے رحمت و مغفرت طلب کرواور اس طرح سے خداوندِ کریم سے اُن کے لئے رحمت طلب کرو، ’’ رب ارحمھما کما ربینیٰ صغیرا‘‘ اے خدایا !اسطرح اُنہیں اپنی آغوشِ رحمت میں لے لیں جس طرح اُنہوں نے مجھے اپنی آغوشِ رحمت میں لیا ہوا تھا۔ جب چھوٹا سا تھا میں کسی قابل نہ تھا اور میرے والدین نے مجھے اپنے آغوشِ رحمت میں لیا اور میری خاطر انہوں نے بہت سختیاں و دشوارِیاں برداشت کیں۔اپنی نیندیں قربان کیں، اپنا آرام و اپنی آسائش قربان کیں۔ اے پروردگار آج یہ بڑھاپے کو جاپہنچ چکے ہیں ، آج ان کی وہ حالت ہوگئی ہے جو میرے بچپن میں میری تھیں ،میں بہت ضعیف اور ناتواں تھا ۔ اور آج میرے والدین بڑھاپے کی وجہ سے اس منزل کے قریب جا پہنچے ہیں۔اُس وقت میرے والدین کو تو نے اپنی رحمت کی آغوش بنا کر مجھے عطا کئے اور آج مجھے اپنی رحمت کی آغوش بنا تاکہ میں اُن کی خدمت کرسکوں۔
والدین کا عظیم سایہ جو انسان کو میسر ہے۔اگرچہ وہ قدریں جو قرآنِ مجید اور دین نے ذکر فرمائی ہے وہ قدریں آہستہ آہستہ دوسرے تہذ یبو ں کے اثر میں یا دوسرے معاشرے کے اثر میں اُٹھی جا رہی ہے۔خصوصا وہ قدریں مسلم معاشرے سے دُور ہوتی جارہی ہیں۔جن میں سے ایک یہی والدین کی سعادت ہے جو انسانوں کو نصیب ہوئی ہے۔کتنے خوش قسمت ہے وہ لوگ جن کو ماں باپ کی خدمت کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے۔یہ بہت بڑی توفیق ہے اﷲکی طر ف سے ! ابھی شاید ہمیں اُس کا احساس نا ہو ،لیکن جب آنکھیں کُھلتی ہے، تو انسان آگاہ ہوتا ہے ،بیدار ہوتا ہے، اُ س وقت اُسے احساس ہوتا ہے کہ یہ کتنی عظیم خدمت تھی جس کی توفیق اﷲتعالیٰ نے عطا کی۔
اگر انسان پوری عمر سب کچھ چھوڑ کے ماں باپ کی خدمت شروع کردے اُن کے ایک لحظہ کے عمل کا بدلہ نہیں دے سکتا !۔جو ماں باپ خاص کر ماں نے سختیاں برداشت کیں۔اس حد تک روایات میں بتا یا گیا ہے کہ تمہارے ماں باپ جیسے بھی ہو،اگر وہ ان پڑھ بھی ہے تو بھی اُن کا احترام کرو،اگر وہ تم جیسے سمجھ دار نہیں ہے تو بھی اُن کا احترام کرو۔بلکہ یہاں تک ہے کہ معاذاﷲاگر کسی کے ماں باپ کافر بھی ہے تو بھی وہ اُن کا احترام کریں۔یہ کُفر بھی باعث نہیں بنتاکہ انسان ماں باپ کو نظر انداز کردیں۔صرف ایک صورت ہے کہ جہاں پر ماں باپ سے دور ہو سکتے ہیں و ہ یہ کہ ماں باپ دشمنِ دین ا وردشمنِ اولیاء ہوجائے۔ماں باپ اگر خدا پرست نہیں بھی ہے تم اگر خدا پرست ہو ،مومن ہواُن کا احترام پھر بھی بجا لاؤچونکہ وہ تمہارے ماں باپ ہے۔
عزیزانِ من!جب انسان اس دُنیا میں جنم لیتا ہے تو اس کی ماں کن مراحل سے گزرتی ہے اور اُسے کہاں سے کہاں پہنچاتی ہے۔اے انسان ذرا توجہ کر!جب تو بڑا ہوجاتا ہے تجھ میں شعور پیدا ہوجاتا ہے،تو کسی قابل ہوجاتا ہے سب سے پہلی چیز جس کو تُو بھول جاتا ہے وہ ماں ہے! آہ!یہ بھولنے والی چیز ہے۔عزیزانِ من سب کچھ بھول جا !لیکن ماں کو نہ بھول ۔سب کو فراموش کردے لیکن اپنی ماں کو فراموش نہ کر۔اُس انسان پر کبھی اعتماد نا کروجو اپنی ماں کو بھول جائے۔جب بھی کوئی خاتون دیکھیے کہ میرا خاوند اپنی ماں کا احترام نہیں کرتا وہ یہ جان لے کہ وہ میرا بھی کبھی احترام نہیں کرے گا ۔ہمیں عموماََ غلط فہمی ہوجاتی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جو ماں کا نہیں ہے وہ بیوئی کا نہیں ہے ، بلکہ جو ماں کا نہیں ہے وہ کسی کا نہیں ہے۔
آج کل انسان کی موت کم عمری میں ہی کیوں ہو جاتی ہے اُ س کی ایک خاص وجہ ماں باپ کی نافرمانی ہے۔آج ہم سب بڑے فخر سے خود کو تعلیم یافتہ کہتے ہیں لیکن اپنے والدین کے ساتھ ٹھیک طرح سے بات بھی نہیں کرتے ا ور بُھول جاتے ہیں۔آج کے اس ترقی یافتہ زمانے میں بہت سے ملکوں میں بوڑھے ماں باپ کیلئےold age housesبنائے گئے ہیں جہاں پر ماں باپ کو اپنے سے دور رکھا جاتا ہے اور اس کے لئے قانون بھی نافذ کیا گیاہے۔جس تہذیب سے ہم متاثر ہو رہے ہیں اُ س تہذیب میں یہی ہے کہ ماں باپ کو old age houseمیں رکھا جائے اُور جہاں پر نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ خیال رکھنے والا ہے ۔وہold age house انتظامیہ کو ماں باپ کے رہنے کا کرایہ تھما دیتے ہیں ۔سالہا سال وہ ا پنے ما ں باپ سے ملنے نہیں آتے ہیں ۔یہ بہت بڑا ظلم و ستم ہے اُن ہستیوں کے ساتھ جنہوں نے تجھے اپنے خون سے پیدا کیا ،جنہوں نے تجھے اپنا وجود پلایا۔جو دودھ تجھے ماں نے پلایا ہے وہ دودھ ماں کا وجود ہے ،یہی دودھ تمہاری رگوں میں رواں ہے۔اے انسان!سوچ ۔۔۔کیوں ایک ماں تجھے اپنی چھاتی سے لگاتی ہے کیونکہ ایک دن اُس کو تمہاری ضرورت پڑے گی،اُس وقت تجھے اپنی ماں کا سہارا بننا ہے ۔جب تیرے ماں باپ بڑھاپے کو پہنچ جائے تو ظاہر ہے کہ اُن کی جوانی ختم ہوچکی ہوگی،اُس وقت اُن کو جاہ و حشمت نہیں چاہے،اُس وقت اُن کو راشن نہیں چاہیے بلکہ اُس وقت اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ احسان اور تمہاری ہمدردی ہے۔اسی لیے قرآنِ مجید میں ارشاد ہیں وَبالوالدینِ احسانا۔
ا ے انسان ماں باپ کو احسان کی ضرورت ہے۔ یاد کر وہ وقت جب تو شیرخوار تھا تواُس وقت تجھے احسان کی ضرورت تھی اب جب کہ تمہارے ماں باپ بڑھاپے کو جا پہنچے ہیں،اب اُنہیں احسان کی ضرورت ہے۔یہ نہ کر کہ اُن کے لیے نوکر رکھ دے ،اُن کے لئے کنیزیں رکھ دے تاکہ وہ اُن کو صاف ستھرا کرے اور آپ کہیں گے کہ ہم نے اُن کی خدمت کے لئے نوکر رکھے ہیں ،یہ حقوقِ والدین نہیں ہے! ا سلئے کہ اگر آپ اُنہیں بہترین بنگلوں میں رکھیں،بہترین خدمتگار بھی اُن کی خدمت کے لئے رکھیں لیکن خود جاکراگر آپ نے اُن کا حال نا پوچھا وہ مایوس ہو جایں گے کیونکہ نوکروں سے اُن کو وہ ،سکون نصیب نہیں ہو گا جس کی اُن کو اشدضرورت ہے۔
آپ دیکھتے ہونگے کہ جن کے اولاددُ ور ہوتے ہیں ،دوسرے ملکوں میں ہوتے ہیں اور جب اُ ن کا فون آجاتا ہے تو بیمار ماں باپ لپک کر فون ہاتھ میں لیتے ہیں ۔ بات کرتے ہی وہ پرسکون ہوجاتے ہے۔ اے انسان اُن کے ساتھ وہ کام کر جو موذوں اور وقت کی ضرورت کے مطابق ہو ،یہ نا دیکھ اُن کا تقاضا کیا ہے،اُن کی Demandکیا ہے ،اُن کو کیا چاہیے ،بلکہ جو بھی اُن کا مطالبہ ہوتا ہے وہ حسین ہوتا ہے۔جب ماں باپ بڑھاپے کو پہنچ جاتے ہیں اُس وقت اُن کو سمجھو ،اُن کی ضروریا ت کیا ہے ا،ُن کو چاہیے کیا۔آیا!وہی کچھ اُن کو چاہیے جو کچھ ہم اُن کو دے رہیں ہے۔بعض لوگ اپنے والدین کو چھوڑ دیتے ہیں اپنے حال پر ان کو سخت توبہ کرنی چاہیے ،خُدا کی بارگاہ میں،معافی طلب کرنی چاہیں۔صرف دن میں ایک بار اُن کا حال پوچھ لیا کرو،اُن کو یہ بتادو کہ آپ اُن کی فکر میں ہو،اُنہیں بھولے نہیں ہو اسی سے اُن کو ساری بیماریاں ٹھیک ہو جائیں گی۔
کتنے ایسے ماں باپ بھی ہے جن کو کوئی بڑی بیماری نہیں ہے۔اگر اُن کو کوئی بڑی بیماری ہے وہ یہی ہے کہ اولاد اُن کا حال نہیں پوچھتے ہیں،اس نے اُن کو زمین بوستہ کر دیا ہے،اس نے اُن کی کمرجُکادی ہے،اس نے اُن کو ناتوان کردیاہے۔بہت سارے ماں باپ جو لاٹھی کے سہارے چلتے ہیں اگر اُن کا حقیقی سہارا مل جائے تو وہ لاٹھی کاسہارا چھوڑ کے اولاد کی انگلی کے سہارے چلنا پسند کریں گے۔وہ نعمت جو ہم سے چھینی جا رہی ہے اُس مغربی تہذیب کے نتیجے میں وہ یہی خاندانی Values ہے۔مغربی تہذیب نے ماں باپ کو نوکر بنا ڈالا۔اس تہذیب نے ہماری بنیادیں ہلاڈالی کہ جو خاندانی قدریں تھیں وہ کم ہوتی گئی۔خوش قسمت ہے وہ لوگ جن کو ربّ کریم نے یہ توفیق دی ہے کہ اپنی زندگی میں وہ ماں باپ کی خدمت کر سکیں۔
خُداوند کریم ہر ماں باپ کو صالح اولاد عطا کریں اُور ہر اولاد پر اُس کے والدین کا سایہ موجود رہے۔ہر انسان کو خاص کر امتِ مسلمہ کو اپنے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائیے۔(آمین)
مل گئی منزل مجھے جب خدمتِ اماں کی کی
ہر منزل یہ کہہ اُٹھی آپ کی ضرورت ہے مجھے
بنایا انسان اماں نے اس دورِظُلمت میں مجھے
ہر زمانہ یہ کہہ اُٹھا آپ کی ضرورت ہے مجھے
زندگی خوشبو لگتی ہے جب اماں ہوتی ہے سامنے
ہر خوشبو یہ کہہ اُٹھی آپ کی ضرورت ہے مجھے
عرشؔ جب بھی اماں سے کہتے کہ کیا چاہیے تجھے
ہر وقت وہ بس کہتی رہی آپ کی ضرورت ہے مجھے