ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے فرمایاہے کہ انسان کے لئے ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔محققین اور علماء کرام نے بھی منشیات کے برے اثرات پر طبی و مذہبی نقطہ نظر پر روشنی ڈالی ہیں۔مولانا ادریس کاندھلویؒ نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں شراب کے لئے نقصانات کا ذکر کیا ہیں جس کے مطابق نشہ کرنے والے انسان کی عقل بیکار ہوجاتی ہے اور اس کی عقل پر پردہ پڑھ جاتا ہے،شرابی کی زبان اور اس کے اعضاء اس کے اختیار میں نہیں رہتے ۔اس کے علاوہ انہوں نے لکھا ہے کہ کہ شراب انسان کے اندر حیوانیت کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو پھر باہمی دشمنی اور عداوت کا سبب بنتا ہے۔رسول اللہﷺ نے ایک اور حدیث میں فرمایا کہ شراب تمام برے کاموں کی جڑ ہے اور جو شخص اس کو پئے گا اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوگی اور اگر وہ اسی حالت میں مرے گا تو وہ جاہل کی موت مرے گا۔
میر عترت حیدری
ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے فرمایاہے کہ انسان کے لئے ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔محققین اور علماء کرام نے بھی منشیات کے برے اثرات پر طبی و مذہبی نقطہ نظر پر روشنی ڈالی ہیں۔مولانا ادریس کاندھلویؒ نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں شراب کے لئے نقصانات کا ذکر کیا ہیں جس کے مطابق نشہ کرنے والے انسان کی عقل بیکار ہوجاتی ہے اور اس کی عقل پر پردہ پڑھ جاتا ہے،شرابی کی زبان اور اس کے اعضاء اس کے اختیار میں نہیں رہتے ۔اس کے علاوہ انہوں نے لکھا ہے کہ کہ شراب انسان کے اندر حیوانیت کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو پھر باہمی دشمنی اور عداوت کا سبب بنتا ہے۔رسول اللہﷺ نے ایک اور حدیث میں فرمایا کہ شراب تمام برے کاموں کی جڑ ہے اور جو شخص اس کو پئے گا اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوگی اور اگر وہ اسی حالت میں مرے گا تو وہ جاہل کی موت مرے گا۔
دنیا بھر میںآج منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اسے اس قدر شوق سے استعمال کیا جارہا ہے کہ اس میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ہندوستان میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہوگئی ہے ۔یہاں بھنگ پینے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے کیوں کہ یہ آسانی سے مل جاتی ہے اور اسے پینے کے لئے تیار کرنا بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں۔اگر ہم نشہ آور اشیاء کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ تاریخ بہت پرانی ہے اور پوری دنیا میں صدیوں سے مختلف نشہ آور اشیاء اور ان کے اجزاء کو سادہ طریقے سے ذہنی قوت اور پھرتی کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ آج کل ادویہ سازی کے شعبے میں غیر معمولی ترقی اور نئی ٹیکنالوجی کے طفیل نشہ آور اجزاء کی مدد سے انتہائی طاقتور اشیاء تیار کرنا اب انتہائی آسان ہوچکا ہے اور اس ٹیکنالوجی نے منشیات فروشوں کے مابین رابطے اور زیادہ مزید مستحکم کر دئیے ہیں۔حکومت منشیات کی فراہمی کی روک تھام کے بڑے بڑے دعوے کر رہی ہے لیکن زمینی سطح پر حکومت کے تمام دعویں ناکام ثابت ہورہے ہیں ۔شہر میں تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طلاب اور یہاں تک کہ بڑے بڑے دفتروں میں ذمہ دار افسران بھی نشہ کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ان لوگوں کوجب تک منشیات دستیاب ہوگی ان کی تعداد میں یونہی اضافہ ہوتا رہے گا۔عالمی رہنماؤں کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق منشیات کے خلاف عالمی جنگ ناکام ہوچکی ہیں ۔اس رپورٹ میں اقوامِِ متحدہ کے تخمینہ کا حوالہ دیا گیا ہے جسکے مطابق 1998 ء سے اب تک دنیا بھر میں نشیلی اشیاء استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 37 فیصد اضافہ ہوا ہے جو روزبروز بڑھتا ہی جارہا ہے اس رپورٹ میں ایسی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جو یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ منشیات کے خلاف جنگ موثر ہے۔ رپورٹ کے مطابق سیاسی اور عوامی رہنماؤں میں اتنی جرأت ہی نہیں کہ وہ ان باتوں کو عوامی سطح پر بھی تسلیم کریں جن باتوں کا وہ نجی محفلوں میں اعتراف کرتے ہیں ۔ایک اور رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 20 کروڑ سے زائد افراد منشیات کی زد میں ہیں اور ہر سال 10 لاکھ سے زائد افراد شراب کے استعمال سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں جس میں دیگر نشہ آور ادویہ اور مختلف اقسام کے عادی افراد کی تعداد الگ ہے۔
منشیات کے استعمال سے جسمانی تکالیف ہی نہیں بلکہ ذہنی صحت کے حوالے سے بھی کئی مسائل جنم لے رہے ہیں اس لئے ہمارے لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ایک عام شخص نشے جیسی گھناونی لت میں کیوں اور کیسے گرفتار ہوجاتا ہیں؟ اس سلسلے میں مختلف ماہرین نے نشے کی لت میں مبتلاء افراد کا جائزہ لیا جنکے مطابق ایسے افراد جن کے نذدیک زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ،جو افراد زندگی کی راہ میں درپیش رکاوٹوں سے جلدی گھبرا جاتے ہیں اور مشکلات کا مقابلہ نہیں کر پاتے وہ افراد زندگی کی پریشانیوں سے گھبرا کر جلدی منشیات کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اسی طرح وہ لوگ جو حیوانوں کی سی زندگی گزارتے ہیں ،وہ لوگ جو زندگی کی ناپسندیدگی اور تلخ حقیقتوں کا سامنہ نہیں کر سکتے ایسے ہی افراد نشے کا سہارا لیتے ہیں ۔تاہم بے روزگاری بھی ایک اہم اور بنیادی سبب ہے جسکے باعث نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد اس علت میں مبتلاء ہورہی ہے۔نشے کے استعمال کے اثرات بہت برے اور گہرے ہے جسکے باعث پورا خاندان متاثر ہوتا ہے۔نشے کی حالت میں انسانی جان اور عزت و آبروں کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ،جنسی جرائم کے زیادہ تر معاملوں میں بھی نشیلی چیزوں کا استعمال ایک بہت بڑا سبب مانا جاتا ہے۔نشے میں مبتلا افترادجب شام کو گھر واپس آتے ہیں تو نہ وہ فیملی میں بیٹھنے کے قابل رہتے ہے اور نہ ہی وہ ہوش میں رہ کر کوئی بات کرسکتے ہے جس وجہ سے ان کے روئیے سے پورا خاندان متاثر ہوجاتا ہیں۔ نشے کے عادی افراد شیطان کے مکروہ پنجوں میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ شیطان ہر برائی میں ان کی رہنمائی کر رہا ہے،ہر خیر سے انہیں روک رہا ہے اور انسانیت سسکیاں لے رہی ہے۔اس نشے میں انسان کہیں کسی کو قتل کر رہا ہے ،کہیں رشتوں کا تقدس پامال کر رہا ہے تو کبھی کسی کی چوری چکاری اور آبروں ریزی بھی کر رہا ہے۔بعض جگہوں پر نوجوان لڑکے نشے کی عادت کو بطورِ فیشن اپنا رہے ہے اور پھر آہستہ آہستہ نشے سے انہیں پیار ہوجاتا ہے جسکے بعد گھر بار حتیٰ کہ خود اپنی ذات اور زندگی سے بھی ایسے نوجوان لاپرواہی اختیار کر لیتے ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق نشہ آور اشیاء کا مستقل استعمال انسان کے دماغ میں موجود عصبی خلیات دھیرے دھیرے تباہ کر دیتا ہے۔منشیات کا استعمال کسی کو وقتی طور پر ذہنی سکون اور خوشی دے دیتا ہو لیکن اس کا مسلسل استعمال انسان کے لئے انتہائی مہلک زہر کی طرح ثابت ہوتا ہے جو اس کو جیتے جی مار رہا ہوتا ہے، نشہ کرنے والا شخص اپنے نشے کی خاطر اپنا کاروبار اور صحت سب کچھ تباہ کر دیتا ہیں انہیں ڈپریشن بھی ہوجاتا ہے بلکہ یہ عام طور پر ڈپریشن میں ہی رہتے ہیں ۔دوسری طرف اگر منشیات کی دستیابی آسان ہوجائے تو عوام کو محفوظ اور صحت مند رکھنا زیادہ مشکل ہوگا۔اس وقت سرکاری مشینریوں کی مدد سے منشیات فروش جہاں چاہتے ہیں اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی مقدار میں منشیات پہونچا دیتے ہیں جواس بات کی گواہ ہے کہ حکومت نوجوان نسل کو اس وباء میں دکھیلنے کے لئے خود ذمہ دار ہے۔اس لئے اصل مجرم وہ حکومتی افسران ہے جو اس کی اسمگلنگ اور کاروبار کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے قاصر ہے۔سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہر سال منشیات کی روک تھام اور اسکی غیر قانونی اسمگلنگ کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے تو منشیات کی بڑھتی ہوئی لعنت کا خاتمہ اب تک ممکن کیوں نہ ہو سکا؟اگر دنیا کے ہر ملک میں منشیات اور اس کا کاروبار کرنا ایک سنگین جرم مانا جاتا ہے تو پھر حکومتیں اس وباء کو ختم کرنے میں آج تک ناکام کیوں ہیں؟ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات کی روک تھام کے لئے ہم سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں،اگر حکومتی سطح پر یہ کام نہیں ہوسکتا تو ہم اتحاد کے ذریعے اجتماعی طور پر اس کی غیر قانونی روک تھام کے لئے حکومتوں کو گھیرے میں لے سکتے ہیں۔اس حوالے سے کشمیر میں ایک فلم بھی بنی تھی جو’’ کشمیر ڈیلی‘ ‘کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوگئی اور اس فلم کو پوری دنیا میں اس وجہ سے کافی سراہنابھی ملی تھی کیوں کہ ایک تو یہ کشمیر کی تاریخ میں پہلی فلم بنی تھی جو کشمیری اور اردوزبان میں بڑے پردے پر دکھائی گئی تھی اور دوسرایہ کہ اس فلم کے ذریعے وہ سب کچھ واضع ہوگیا تھا جس کے ذریعے ایک نوجوان منشیات کے سنگین جرم میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔یہ فلم کشمیر کے ایک ہونہار نوجوان حسین خان نے ڈائریک کی تھی جو اب جلد ہی پورے ہندوستان کے سینما گھروں میں دکھائی جائے گی اسی طرح الیکٹرانک و پرنٹ میڈیاں بھی منشیات سے ہونے والی تباہی کو واضع کر کے قوم کے نوجوانوں کو بچانے کے لئے اپنا اپناکردار ادا کر سکتا ہیں۔اس کے علاوہ منشیات سے متعلق مضامین ، کارٹون اور مزاحیہ کو اخبارات میں جگہ دیں تاکہ لوگ اس کا مطالعہ کر کے نہ صرف اپنے آس پاس کے ماحول کوبچاسکتے ہے بلکہ اس میں گرفتار نوجوانوں کے لئے بھی اجتماعی طور پر کاکر سکتے ہیں۔
والسلام!
مقالہ نگار باغوان پورہ لال بازار سری نگر کشمیرسے تعلق رکھتے ہیں۔