پیغمبر اسلام (ص)یکتا پرستی کے منادی اور اخلاق و مہربانی کے داعی ہیں

بمناسب28صفر

پیغمبر اسلام حضرت محمد (ص) بن عبداللہ بن عبدالمطّلب بن ہاشم، اللہ تعالی کے آخری پیغمبر ہیں آپ، اولوالعزم انبیاء میں سب سے افضل ہیں آپ کا اہم ترین معجزہ قرآن ہے۔ آپ یکتا پرستی کے منادی اور اخلاق کے داعی ہیں۔ نیز سربراہ حکومت، قانون ساز، سماجی مصلح اور افواج کے سربراہ تھے گوکہ آپ عرب کے مشرک معاشرے میں پیدا ہوئے تھے تاہم اپنی زندگی کے دوران بتوں کی پرستش سے دوری کرتے تھے اور معاشرے میں رائج اخلاقی برائیوں اور قباحتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ حتی کہ چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے۔ آپ کا اہم ترین پیغام توحید اور یکتا پرستی کی طرف دعوت تھا اور آپ اپنی بعثت کا مقصد اخلاقی مکارم اور اچھائیوں کی تکمیل و اتمام سمجھتے تھے۔ اس کے باوجود کہ مکہ کے مشرکین نے آپ کو اور آپ کے پیروکاروں کو کئی سال تک تشدد اور اذیت و آزار کا نشانہ بنایا مگر آپ اور آپ کے پیروکار کبھی بھی اسلام سے دستبردار نہ ہوئے مکہ میں تیرہ سال تک دعوت و تبلیغ کے بعد آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی۔آپ کی ہجرت مدینہ اسلامی تاریخ کا مبداء قرار پائی۔ آپ کو مدینہ میں مشرکین مکہ کی طرف سے متعدد جنگوں کا سامنا کرنا پڑا گوکہ مجموعی طور پر ان جنگوں میں فتح نے اسلام اور مسلمانوں کے قدم چومے۔رسول خدا(ص) کی کوششوں سے عربوں کا جاہلیت زدہ معاشرہ مختصر سے عرصے میں ایک توحیدی معاشرے میں بدل گیا اور تقریباً پورے جزیرے نمائے عرب نے آپ کی حیات طیبہ کے دوران ہی اسلام قبول کیا۔ بعد کے ادوار میں بھی آج تک اسلام کا فروغ جاری ہے اور آج دین اسلام مسلسل فروغ پانے والا دین سمجھا جاتا ہے۔ رسول خدا(ص) نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ آپ کے بعدقرآن اور اہل بیت (ع) کا دامن تھامے رکھیں اور ان سے ہرگز جدا نہ ہوں اور گوناگوں مواقع پر منجملہ واقعہ غدیر میں امام علی علیہ السلام کو اپنا جاانشین مقرر فرمایا۔سنہ11 ہجری کے ابتدائی مہینوں میں رسول اللہ(ص) بیمار ہوئے اور وفات پا گئے۔ جب آپ کی بیماری شدت اختیار کرگئی تو منبر پر رونق افروز ہوئے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی کی سفارش فرمائی اور فرمایا: اگر کسی کا مجھ پر کوئی حق ہے تو وہ مجھ سے وصول کرے یا بخش دے اور میں نے کسی کو آزردہ کیا ہے تو میں تلافی کے لئے تیار ہوں۔
پیغمبر اکرم(ص) اسی سال 28 صفر سنہ 11ہجری کو 63 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ جیسا کہ نہج البلاغہ میں مذکور ہے وفات کے وقت آپ کا سر مبارک حضرت علی (ع) کے سینے اور گردن کے درمیان تھا۔اس وقت حضرت سیدہ فاطمہ (س) کے سوا آپ کے فرزندوں میں سے کوئی بھی زندہ نہ تھا۔ آپ کی وفات سے ایک یا دو سال قبل متولد ہونے والے ابراہیم سمیت آپ کے تمام فرزند وفات پاچکے تھے.۔آپ کے جسم مطہر کو حضرت علی (ع)نے اپنے خاندان کے چند افراد کے ساتھ مل کر غسل اور کفن دیا اور آپ کو اپنے گھر میں سپرد خاک کیا جو مسجد النبی میں واقع ہے۔(بشکریہ ابنا)