کشمیری ثقافت اور وازوان

شادی بیاہ کی تقریبات میں جب ایک بڑے سے شامیانے یا ہال میں لوگ جمع ہوکر یک بارگی میں کھانا کھاتے ہیں تو اہلیان وادی اس ایک ساتھ کھانا کھانے والے مجمعے کو ” سب” کا نام دیتے ہیں۔ کھانا پیش کرنے سے پہلے شامیانے کے دروازے پر باری باری کیی آدمی آپکی گنتی ایسے کریں گے کہ آپکو لگے گا کہ پتہ نہیں میرے اوپر تعزیرات ہند کی کونسی دفعہ کے تحت فرد جرم عائد ہوگا۔ اگر پوری جماعت کو چار سے تقسیم کرنے کے بعد گر ایک دو تین افراد کم پڑ جائیں تو باہر ہلچل مچ جاتی ہے ۔

از قلم:الطاف جمیل شاہ سوپور کشمیر

وازوان ایک روایتی کشمیری پکوان ہے، جس میں کئی طرح کے مختلف پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ جن میں روغن جوش، گوشتابہ، کباب، رستہ، میتھی اور طبخ ماز قابل ذکر ہیں۔ وازوان عام طور پر خصوصی تقریبات مثلاً شادی اور منگنی وغیرہ پر تیار کیا جاتا ہے۔ اب اس میں یہ اضافہ ہوا ہے کہ سیاحتی مقامات پر یہ پکوان سیاحوں کے لئے بھی میسر رکھے جاتے ہیں تاکہ کشمیری ضیافتوں سے سیاح بھی لطف اندوز ہوں ۔وادی کشمیر کے باہر جموں، امرتسر اور دہلی میں بھی بھولے بھالے کشمیریوں کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کےلیے وازہ وان جیسی چیز بنائی جاتی ہے لیکن کشمیر کی شادی کے وازہ وان کی مناسبت سے اونچی دکان پھیکے پکوان جیسا معاملہ ہے۔

کشمیری وازوان گوشت سے بنے مختلف اقسام کے پکوانوں پر مشتمل ایک دعوتی ضیافت ہے جسے وادی کشمیر کے لوگ مختلف مواقع پر تیار کرتے ہیں۔روایتی وازوان تیار کرنے والے خصوصی آشپازوں، جنہیں کشمیری زبان میں ’’وازا‘‘ کہتے ہیں، ان کی ہنر مندی اور ہاتھ کی صفائی کا یہ کمال ہے کہ وہ اس وازہ وان کو عروج پر رکھے ہوئے ہیں وازہ وان شاید واحد چیز ہے جو صدیوں سے موجود ہے اور مسلسل اس کی مختلف اقسام میں اضافے بھی ہورہے ہیں اور دن بہ دن ان کے پکوانوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے

کشمیری ثقافت میں شادی کے کھانوں کی انوکھی روایات ہیں۔ کچھ ان کہے اصولوں پر صدیوں سے ہر کوئی بلا چون و چرا عمل پیرا ہوتاہے۔ وادی کشمیر میں شادی بیاہ کے دوران یہاں کے وازہ وان کی مہک اور پھر اس سے لطف اندوز ہونے کا الگ ہی مزہ ہے جسے پانے کے لئے ہر کوئی ہمہ وقت مستعد رہتا ہے۔

کشمیری مسلمان اپنی شادی بیاہ کی تقریبات میں خصوصی طورپر تانبے کے برتنوں کا استعمال کرتے ہیں ۔وازہ وان بنانے کی دیگچیاں ،ہاتھ دھونے کے لیے استعمال ” طشناڑی” سے لیکر ترامی اور وازہ کے لمبے دستے والا چمچ “چونچہ” بھی تانبے کا ہی ہوتا ہے۔ ان تانبے کے ظروف پر Nickel کی قلعی کی جاتی ہے جس سے تانبے کے برتنوں پر چاندی جیسی چمک آجاتی ہے۔وادی کشمیر میں اس پیشے سے منسلک برادری کو “قلعی گر” کہا جاتا ہے۔ماضی قریب میں اس پیشے کی بڑی مانگ رہتی تھی۔آج بھی ہر شہر اور قصبے میں قلعی گروں کی دکانیں نظر آتی ہیں جہان نقش و نگار سے خوبصورت تانبے کے برتنوں پر قلعی کا کام کیا جاتا ہے۔ تانبے کی گول طشتری کو “ترامی” کہا جاتا ہے۔اس ترامی میں دعوتوں کے دوران چار افراد ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں ان چار افراد کا گرچہ کوئی خاص تعلق بھی آپس میں نہ ہو پر سالن کی تقسیم کاری گوشت کی بوٹیون کا بٹوارہ ایمانداری سے کرتے ہین۔

شادی بیاہ کی تقریبات میں جب ایک بڑے سے شامیانے یا ہال میں لوگ جمع ہوکر یک بارگی میں کھانا کھاتے ہیں تو اہلیان وادی اس ایک ساتھ کھانا کھانے والے مجمعے کو ” سب” کا نام دیتے ہیں۔ کھانا پیش کرنے سے پہلے شامیانے کے دروازے پر باری باری کیی آدمی آپکی گنتی ایسے کریں گے کہ آپکو لگے گا کہ پتہ نہیں میرے اوپر تعزیرات ہند کی کونسی دفعہ کے تحت فرد جرم عائد ہوگا۔ اگر پوری جماعت کو چار سے تقسیم کرنے کے بعد گر ایک دو تین افراد کم پڑ جائیں تو باہر ہلچل مچ جاتی ہے ۔اوہ بھائی کھانا کھایا۔آو بیٹھ جاؤ کھانا کھالو باہر جو بھیڑ ہوتی ہے وہ اکثر اس صاحب دعوت کے معاون و مددگار یا رشتے ناطے کے لوگ ہوتے ہیں اور مددگار کہلاتے ہیں ان مدد گار لڑکوں میں کسی کی خوش قسمتی کہ اسے کھانے کےلیے آخری موقعے پر اندر بھیج دیا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے عالمی کپ شروع ہونے سے پہلے ٹیم کا کوئی کھلاڑی زخمی ہو جائے اور اسکی جگہ کسی اور کھلاڑی کو ٹیم میں شامل کیا جائے۔ بہرحال یہ چار چار لوگوں کی تقسیم جیسے ہی پوری ہو جاتی ہے تو وازہ اور مددگار حرکت میں آجاتے ہیں۔ جب شاہی انداز میں “طش ناڑی” سے ہاتھ دھلاے جاتے ہیں تو انسان اپنے آپ کوعظیم مغل بادشاہ اکبر اعظم کے دور میں محسوس کرتا ہے۔ہاتھ دھلانے کے لیے جو طبقہ رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرتا ہے وہ صاحب خانہ کے کنوارے اور نوجوان رشتے دار اور پڑوسی لڑکے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح جب خواتین کی ضیافت کے دوران یہ کنوارے نوجوان ہاتھوں میں طش ناڑی ،دستر خواں پینے کا پانی اور اضافی چاول کی طشتریاں لیکر بڑی دبنگ اینٹری مارتے ہیں تو خود کو کسی نئے نویلے شاہی خادم سے کم نہیں سمجھتے۔ خواتین میں کھسر پھسر شروع ہو جاتی ہے۔ وہ نیلی جینز والا جمیلہ کا بیٹا ہے۔ باہر چنڈی گڑھ میں ایم بی اے کررہا ہے۔ اسکی شرافت اور ندامت تو دیکھو۔ اگر دعوت میں شریک با حیا لڑکی نے ہمت کرکے اس نیلی جینز والے سے ایک سے زیادہ بار پانی مانگا اور لڑکی کی ماں نے بے حد اصرار کرکے اسے ایک رستہ کھانے پر مجبور کردیا تو سمجھئے کہ ایک اور رشتے کے امکانات روشن ہو گیے ہیں کیونکہ پھر کچھ وقفے بعد ہی آپ شادی کی ایک ایسی ہی تقریب میں ایسی ہی دعوت کے مزے اڑائیں گے۔ ہاتھ دھونے کی رسم کی ایک بہترین روایت یہ ہے کہ سب سے پہلے چار لوگوں کے مجمعے میں چہرے کے خدوخال سے بزرگ نظر آنے والے کو ہاتھ دھونے کا موقعہ دیا جاتا ہے۔ اس روایت کی پاسداری نہ کرنے والے شخض کو باادب تصور نہیں کیا جاتا۔ ہاتھ دھونے کی رسم سے فراغت کے بعد ایک انسانی زنجیر بناکر مددگار ہاتھوں پر چاول سے بھری ترامیاں مہمانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں اس ترامی کے اوپر صرف مخصوص میتھی گوشت ہوتاتھا۔یہاں بھی اہالیان کشمیر کی ذہانت اور دستیاب وسائل سے استفادہ کرنے کی صفت کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ بھیڑ یا بڑے جانور کے پیٹ کے اعضاء اور انتڑیوں کو خشک میتھی کے ساتھ ملا کر بنایا جاتا ہے۔ دنیا کے اکثر گوشت خور علاقوں میں ان اعضاء کو پھینک دیا جاتا ہے۔ لیکن کشمیر میں پیٹ اور انتڑیوں کی اتنی مانگ رہتی ہے کہ گوشت بکنے سے پہلے ہی یہ اعضاء بک جاتے ہیں۔ بہر حال بات شادی کی دعوت کی ہو رہی تھی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ترامی کے چاولوں کے اوپر مختلف قسم کے گوشت سے بنے زائقے دار سالن کا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے سادہ ترین دور سے لیکر موجودہ دور تک ترامی کے اوپر گوشت کا وزن بڑھتا ہی جارہا ہے۔اور اس میں میتھی گوشت،پنیر،تبخ ماز،کباب،پالک،رستے،مرغے،اور گوشت کی مختلف اقسام کی بوٹیاں شامل ہو گئی ہیں۔کشمیری قوم وقت کی پابندی کے اصول سے بالکل ناآشنا و نابلد ہے۔اگر آپکو کسی شادی کی تقریب میں دن کے بارہ بجے بلایا گیا ہے تو مان کے چلیے کہ ڈھائی بجے سے پہلے کھانا بالکل بھی پیش نہیں کیا جاییگا۔ سرما کے ایام میں کبھی کبھی تو ظہرانہ ۔عشائے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ترامی کے اوپر سےسرپوش اٹھاتے ہی جیسے بھوک سے نڈھال مہمان ترامی پر ہاتھ اٹھاتے ہیں تو سب سے پہلے لفافے کو ڈھونڈا جاتا ہے۔ اسے پھونک مار کر پھلایا جاتا ہے اور پنیر سے لیکر تبخ ماز، مرغ مسلّم اور رستے اسمیں بھرے جاتے ہیں۔لفافوں کے اندر گوشت بھرنے کی یہ بہترین روایت دنیا میں صرف ہماری وادی میں ہی رائج ہے۔کیونکہ یہاں کا موسم بھی اسکی اجازت دیتا ہے۔ ترامی میں شریک چاروں مہاپرش آنکھوں ہی آنکھوں میں سب سے بڑی عمر کے شخض کا انتخاب کرکے گوشت بانٹنے کی ذمہ داری اس کے سر تھوپ کر اس کی حالت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جیسی کردیتے ہیں اور خود پوتن و زیلنسکی کی طرح دعوت کے مزے اڑاتے ہیں۔ اس بنا الیکشن کے سربراہ کے گوشت تقسیم کرنے کے طریقہ کار پر کبھی کبھی اقوام متحدہ کی طرح ہی سوالیہ نشان بھی لگاے جاتے ہیں۔” اوہ ایمہ ہا کیر راے” لیکن جہاں کپتان سے کبھی کبھار غلطی ہو جاتی ہے وہیں تیسرے ایمپائر یعنی “وازہ” سے مجال ہے کبھی چوک ہو جائے۔ اسکے لمبے چمچ میں ہمیشہ چار رستے یا چار گوشت کی بوٹیاں ہی برآمد ہوتی ہیں۔ اپنے ہنر میں یکتا ہونے کے علاوہ وہ بہت ہی غیر جذباتی بھی ہوتا ہے اور حاضرین کی لمبی چوڑی تعریفیں اور مزید تھوڑے شوربے کی مانگ کا اس پر ذرا بھی اثر نہیں ہوتا۔ شادی کی دعوت میں آیے شخض کو خود کا پیٹ سلاد،دہی اور چاول سے ہی بھرتا دیکھا جاتا ہے۔اور اسکا ذہن ان تمام گھر والوں اور دوستوں کی گنتی کررہا ہوتا ہے جنہوں نے شادی کی تقریب میں شرکت ہونے سے پہلے اسے “ناٹ فول” کی بے تکی مانگ کی ہوتی ہے۔ کچھ بہادر قسم کے لوگ تو مشروم اور ندرو کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی لفافوں میں ہی بھر دیتے ہیں۔ جسطرح آیی سی سی بین الاقوامی کرکٹ کے قوانین میں تبدیلی کرتی رہتی ہے اسی طرح گوشت کی حصہ داری کرنے والے سرداران نے حالیہ ایام میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ پلاؤ کے ڈبے، دہی کے ڈبے اور مشروبات کی مختلف اقسام کی بوتلوں بنا کھولےہی لفافے کی نذر کیا جاتا ہے۔ اور اس منصفانہ تقسیم کو بھی ہماری شاندار روایات کا حصہ بنایا گیا ہے۔ جس کے خلاف تا حال کسی بھی عالم دین اور مفتی کی طرف سے کویی فتوے صادر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ بات ہماری کشادہ دلی، وسیع الذہن ہونے کا بین ثبوت ہے۔ کشمیری قوم خصوصاً خواتین کی ذہانت کی داد دینی پڑتی ہے۔ اگر شادی کی تقریب میں ایک ہی گھرانے کے چار افراد شامل ہیں تو وہ واضح اکثریت کے ساتھ ایک ہی ترامی پر قابض ہو جاتے ہیں۔ اور ایسی صورت میں ضیافت کے آخری مرحلے یکھنی کی گیند کو سالم و سابوت ہی لفافے کے اندر منتقل کیا جاتا ہے تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس گوہر نایاب سے مستفید ہو سکیں۔ عام طور پر دعوت میں آیا شخص شروع میں کباب اور رستہ کا ٹکڑا اور آخر میں یکھنی کا مزہ ضرور چکھتا ہے جبکہ مڈل اوورز میں لفافے کو ہی بھرا جاتا ہے۔ اگر کرکٹ کے ماہرین سے کشمیری وازہ وان اور ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ کی مماثلت بتایی جاے تو وہ حیران رہ جاییں گے۔ دونوں جگہ وکٹیں گرنے کا خطرہ شروع اور اختتام تک برابر رہتا ہے جبکہ مڈل اوورز میں اننگ کو بلڈ کیا جاتا ہے یا لفافے کو بھرا جاتا ہے۔کھانے کے اختتام پر سب سے معمرباریش بزرگ سے دعا نیک کی فہمائش کی جاتی ہے۔ ہاتھ دھو کر جیسے ہی آپ اپنی متاع حیات یعنی لفافے کو مضبوطی سے پکڑ کر شامیانے سے باہر کا رخ کریں گے تو آپکو خاندان کا سب سے پڑھا لکھا کوئی نوجوان کرسی پر براجمان قلم اور کاپی تھامے نظر آجائے گا۔جیسے زبان حال سے کہ رہا ہو کہ ماموں جان کا لاکھوں کا پیسہ خرچ ہو گیا۔ آؤ کچھ تو بھر پائی کرو۔ “گل میوٹھ” یا دس بوسہ کی روایت بھی ہماری انوکھی روایات کا حصہ ہے۔ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ جب صاحب خانہ شادی کے اخراجات کا حساب کررہا ہوتا ہے ۔وہیں دعوت سے گیا گوشت فرج میں رکھ دیا جاتا ہے اور تھوڑا تھوڑا کرکے کئی دنوں تک اس وازہ وان کے خوب مزے لیے جاتے ہیں۔ اچھے لوگ خوش قسمت پڑوسیوں کو بھی اس نعمت سے محظوظ کرواتے ہیں۔ جبکہ خیال رکھنے والی ساس اپنے داماد کےلیے بھی حصہ روانہ کرتی ہے۔۔ اور خود بھی خوب مزے کرتی ہے اکثریت میں اس سالن کے ذمہ دار خواتین ہی رہتی ہیں مجال ہے کہ مرد اپنی مرضی سے اس سالن میں سے کچھ اپنے کسی دوست کے لئے اٹھا سکے۔

جب مہمان رخصت ہونے لگے تو نیلی جینز والے لڑکے سے فاطمہ جی کہنے لگی ۔بیٹا اپنی ماں کا نمبر میرے اس فون میں سیو کر دینا۔ اور ہاں۔واپس چنڈی گڑھ جانے سے پہلے اپنی ممی کو لیکر ہمارے گھر ضرور آنا۔ میری نازو کو بہت اچھا لگے گا۔

آپ کے کانوں میں بھی ایک اور شادی کی دعوت کی گھنٹیاں ضرور بج رہی ہونگی۔ جس طرح ہندوستان اور امریکا کے بیچ 2+2 مذاکرات کا لمبا دور چلتا ہے اسی طرح اگر فاطمہ جی اور جمیلہ جی کے بیچ مذاکرات کا دور کامیابی سے جاری رہا تو آپ کو ایک اور مزے دار کباب و رستہ کی لذت سے آشنائی کا موقعہ میسر آجائے گا اور یوں آپ اک بار پھر اپنے پیٹ میں گوشت کی بوٹیاں ایسے دفنائیں گئے جیسے مزار میں کسی خوبصورت انسان کو دفنایا جارہا ہو اور اس پر پھولے نہ سما رہے ہوں کہ آپ پر جور جفا کرنے والا آپ کے جہاں سے نکل کر آپ کے معدے کو ٹھنڈک پہنچا گیا ہے ایسے ہی پیٹ کو کسی اور کے گھر سے مختلف اقسام کے سالن کی لذت سے لطف اندوز کراتے ہیں ویسے گر ایسی کسی دعوت کا انتظام اپنے گھر ہو تو یقین کریں کھانے کو ذرا بھی دل نہیں کرتا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری ویرانیوں میں یہ سب شریک ہیں جو بڑے طمطراق سے آتے ہی جارہے ہیں

نوٹ یہ تذکرہ صرف سماجی روایت کا ہے کہ کشمیری وازہ وان اور دعوت کا کیسا ماحول بنتا ہے اسلامی علوم ایسی کسی فضول خرچی کی ممانعت کرتا ہے جس سے سماج میں مزید سماجی نا برابری کا اثر گہرا ہو اہل ایمان کو چاہئے کہ ایسی تقریبات کو منع کریں جن میں فضول خرچی یا اسلامی تعلیمات سے متصادم کوئی کام ہو۔ولایت ٹائمز