بہشت زہرا(س) کے حرم مطہرکے گنبد پر لہراتا ہوا سرخ علم دنیا کے آزادی پسند انسانوں اورخاص طورپرمستضعفین کویہ بتاتا ہے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، ابا عبداللہ الحسین ؑ کے اس حقیقی فرزندکے فرمان پرمر مٹنے والے لاتعداد شہیدان راہ خدا کی نورانی قبورپرفرزند روح اللہ کا لکھا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں زبانی کلامی دعوے نہیں ہوتے بلکہ عملی میدان میں کارنامے ہوتے ہیں۔
تحریر: عرفان علی
یوم القدس کی مناسبت سے متعدد مرتبہ لکھ چکا ہوں، چونکہ صحافی ہوں اس لئے ہر مرتبہ تحریر میں کچھ نئی بات کرنے کا قائل ہوں، ورنہ یوم القدس کے بارے میں امام خمینیؒ نے 1979ء ہی میں اپنی پالیسی کا اعلان کر دیا تھا اور تب سے اس موضوع پر دنیا کی متعدد زبانوں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ ان نکات کی تکرار نہیں کرنا چاہتا۔ بندہ یوم القدس کو پبلک ڈپلومیسی کے زاویے سے بھی دیکھتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کے عسکری پہلو پر بھی نظر رکھتا ہے۔ جی ہاں! عالمی سیاست کے بت شکن روح اللہ نے محض ایرانیوں کے تن مردہ میں نئی روح نہیں پھونکی تھی، بلکہ انقلاب اسلامی ایران کے ذریعے انہوں نے پورے عالم اسلام کو خالص اسلام کی کامیابی سے متعلق پر یقین بنا دیا تھا۔ یہ امام خمینی کی پبلک ڈپلومیسی کی فتح تھی کہ دنیا بھر کے شیعہ مسلمان بالخصوص اور دیگر آزادی پسند بالعموم خمینی ڈاکٹرائن کی صدائے ھل من پر لبیک کہتے ہوئے دوڑے چلے آئے۔ 1989ء میں امام خمینیؒ کی رحلت کے بعد یہ کریڈٹ ان کے جانشین امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالٰی) کو جاتا ہے کہ یوم القدس آج بھی ہر سال پہلے سے زیادہ شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
امام خمینیؒ نے عالمی سیاست کے مرکزی ولن امریکا سامراج کو پبلک ڈپلومیسی میں جو شکست فاش دی، اس میں ’’یوم القدس‘‘ کا اپنا ہی ایک منفرد کردار ہے۔ آج یوم القدس امریکا میں بھی منایا جاتا ہے۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ امت حزب اللہ دشمن کی ڈی میں کھیلنے کی عادی ہے۔ (ڈی سمجھنے کیلئے فٹ بال اور ہاکی کے کھیل پر غور فرمائیں)۔ امریکا کہتا تھا کہ دنیا بھر میں اس کی پبلک ڈپلومیسی کامیاب ہے۔ اس نے پبلک ڈپلومیسی کے لئے علیحدہ سفارتی شعبہ قائم کر رکھا ہے۔ امریکا ہالی ووڈ کی فلموں اور بعض دیگر کاموں کو اپنی سافٹ پاور قرار دیتا ہے، لیکن یوم القدس کی پبلک ڈپلومیسی دنیا بھر کے ستم رسیدہ انسانوں اور مقبوضہ فلسطین کے مظلوم عربوں کی حمایت میں امریکا کی نرم طاقت کو منوں مٹی تلے دفنا چکی ہے۔ ہاں! کسی دور میں عرب دنیا میں یوم نکبہ اور یوم نکسہ منایا جاتا تھا، لیکن فلسطینیوں اور فلسطینی کاز سے غداری کرکے جعلی ریاست اسرائیل سے درپردہ اور اعلانیہ تعلقات قائم کرنے والے خائن عرب حکمرانوں کی صہیونیت نوازی و امریکا نوازی کا نتیجہ ہے کہ اب ان برے واقعات کی یاد میں منائے جانے والے یہ دو دن عرب ذرایع ابلاغ کی توجہ بھی اپنی طرف مبذول نہیں کرواپاتے۔ لیکن واحد یوم القدس ہے کہ جو عجمی ملک ایران کی ریاستی سرپرستی میں آج بھی منایا جاتا ہے۔
جی ہاں! یہ ایران کی جانب سے فلسطین کاز کی کھلی ریاستی سرپرستی ہے۔ کوئی روک سکتا ہے تو روک کر دکھائے۔ جی ہاں! یوم القدس بظاہر فلسطین کی آزادی کا ہدف رکھتا ہے اور یہ اس کا اولین ہدف ہے بھی، لیکن امام خمینیؒ کی نظر میں دنیا بھر کے مستضعفین کو ایک پیغام تھا کہ وہ عالمگیر سطح پر ایک حزب مستضعفین قائم کریں اور اسی کے تحت پوری دنیا کے مستضعفین اپنے اپنے ممالک میں مستکبرین کو اسی طرح شکست دیں جیسے کہ ملت شریف ایران نے امام خمینی ؒ کی قیادت میں دی تھی۔ آج یوم القدس نہ صرف یہ کہ غزہ کے مستضعفین کی آزادی سمیت پورے مقبوضہ فلسطین کی 1948ء کے نقشے کے مطابق آزادی کے حق میں منایا جا رہا ہے بلکہ آج بحرین اور یمن کے مستضعفین کو بھی یوم القدس منانے والوں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ دن آج بھی دنیا کے سامنے اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنے والی شام کی بشار الاسد حکومت ہے اور اس کے مقابلے میں دہشت گردی اور بغاوت کرنے والے صہیونی ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں۔
اگر شام کی مدد نہ ہوتی تو ایران کا اسلحہ اور دیگر امداد مقبوضہ فلسطین تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ غزہ نے استقامت کا مظاہرہ کیا تو وہ ترکی کے آسرے پر نہیں تھا، پڑھ لیں پوری دنیا میں یہ خبر نشر کی جاچکی کہ رجب طیب اردگان کی حکومت نے جعلی ریاست اسرائیل سے تعلقات بحال کر دیئے ہیں۔ کس کو غزہ یاد رہا؟ رجب طیب اردگان نے شام کے خلاف امریکی صہیونی سعودی اتحاد کا ساتھ دیتے ہوئے شام میں شام کے اتحادی ملک روس کا طیارہ مارگرایا تھا، آج اس غبارے سے بھی ہوا نکل چکی اور اردگان نے روس کے صدر پیوٹن کے نام پیغام میں اس کی معذرت کرلی ہے۔ دو کشتیوں کی سواری کرکے اردگان کب تک بچ پائیں گے؟ ثابت ہوا کہ امریکا و سعودی عرب کے آسرے پر ایسی ہی ذلت مقدر بنتی ہے۔ یا تو وہ صہیونی جعلی ریاست سے روابط کو منقطع کرکے شام سے دوستی کا اعلان کریں، ورنہ روس کے سامنے ڈٹ کر دکھا دیں۔ روس کے خلاف کارروائی شام کے محاذ پر کی گئی تھی، یعنی اس یوم القدس سے پہلے ہی ترکی کی اردگانی حکومت سرنگوں ہوچکی ہے۔ اس سے بڑھ کر یوم القدس اور امام خمینی کی پبلک ڈپلومیسی کی کامیابی کی اور کیا دلیل ہوگی۔؟
یکم اگست 1981ء کو امام خمینی کے یوم القدس پر پیغام کی یہ سطور بھی بہت اہم ہیں۔ پڑھیں اور یوم القدس کے بعد کی دنیا کا موازنہ کریں: ’’رمضان المبارک کا آخری جمعہ یوم القدس ہے اور ماہ رمضان کے آخری دس دنوں میں شب قدر ہے، یہ ایسی رات ہے کہ جسے زندہ رکھنا الٰہی سنت ہے اور اس کی قدر و منزلت منافقین کے ہزار مہینوں سے بہتر ہے، چونکہ مخلوقات کے مقدر کا اسی رات کو فیصلہ ہوتا ہے۔ یوم القدس جو شب قدر کے جوار میں ہے، مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ اسے زندہ رکھیں اور اس دن سے ان میں بیداری اور ہوشیاری کا آغاز ہونا چاہئے۔ پوری تاریخ خاص کر آخری صدیوں میں ہونے والی غفلتوں سے باہر نکلیں، تاکہ ہوشیاری اور بیداری کا وہ دن دنیا کی بڑی طاقتوں اور منافقوں کے دسیوں برس سے بہتر ہو اور مسلمان خود اپنی قوت کے ذریعے اپنی تقدیروں کی بنیاد رکھ سکیں۔‘‘ ’’دنیا کے مسلمانوں کو چاہئے کہ بڑے شیاطین اور بڑی طاقتوں کی غلامی اور اسیری سے رہا ہوکر خدا کی لایزال طاقت سے متصل ہوجائیں۔ تاریخ کے بڑے ظالموں کے ہاتھ مستضعفوں کے ممالک سے کاٹ دیں اور ان کے حرص و ہوس کی امیدوں پر پانی پھیر دیں۔‘‘
اس پیغام کی تاثیر دیکھیں کہ کہ لبنان میں ایک حزب اللہ کا قیام عمل میں آیا اور امریکی سامراجی افواج کو جو وہاں صہیونی تسلط کو مضبوط کرنے آئی تھیں، انہیں کس طرح ذلیل و خوار کرکے نکالا گیا، دنیا میں خود کو سپر طاقت کہنے والے امریکا کی افواج خوفزدہ ہوکر لبنان سے انخلاء4 پر مجبور ہوئیں۔ دنیا میں دہشت قائم کرنے والی سی آئی اے کا اسٹیشن چیف ولیم بکلے بھی مستضعفین کے قیام کے مقابلے میں ڈھیر ہوگیا۔ کہاں سی آئی اے اور کہاں لبنان کے نوجوان! یہ لبنان کی ملت شریف کا امام خمینی ? کی صدا پر لبیک کہنا تھا۔ لبنان کا صدر امین جمایل فوری طور پر جعلی ریاست سے معاہدہ منسوخ کرنے پر مجبور ہوگیا۔ فرانس لبنان سے فوجیوں سمیت فرار پر مجبور ہوا۔ میرے پاس اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں جو ماضی میں بھی بیان کی جاچکی ہیں۔ یہ خدا کی لایزال طاقت سے متصل افراد ہیں۔ ان کے بارے میں منفی پروپیگنڈا نہیں کیا جاسکتا۔ یوم القدس نے منافقین کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جہاں بھی ملتیں غفلتوں سے باہر نکل کر اپنی ذمے داری ادا کرنے کے لئے میدان میں نکلیں، وہیں کامیابیوں نے ان کے قدم چومے۔
بہت سے لوگوں کا اعتراض یہ رہا کہ ایران خود نسل پرست یہودی یعنی صہیونی دہشت گرد جعلی ریاست اسرائیل سے جنگ کیوں نہیں کر لیتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایران کی سرحد ملتی ہے، جو وہ جنگ لڑ لیتا، درمیان میں عراق کو ایران پر جنگ کے لئے اکسا کر یکطرفہ طور پر صدام نے جنگ مسلط کر دی تھی۔ آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے باوجود ایران کے اسلامی انقلاب کا بچ جانا ہی معجزہ تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایران نے صہیونی دشمن کے سامنے کب پیٹھ دکھائی؟ حزب اللہ کس کا لگایا ہوا پودا ہے؟ شام کو کس نے فلسطین دوست پالیسی کی بنیاد پر اتحادی بنایا؟ قدس فورس کس کا نام ہے؟ جولان کے پہاڑی علاقے کے قریب دشمن کی ڈی میں گھس کر مقاومت کون کر رہا ہے؟ کیوں امریکا اور جعلی ریاست اسرائیل کے ہمنوا یروشلم فورس یعنی قدس فورس سے خوفزدہ ہیں؟ شام میں تکفیریوں کو شکست ہوئی، عراق میں داعش سمیت سارے تکفیری جو ذلت کا شکار ہوئے، اس کا کریڈٹ کس کو دیا جاتا ہے؟ کوئی تو بتائے کہ حاج قاسم سلیمانی کون ہے؟ اس ایک سردار کی حیثیت کیا ہے، اس کا کردار کیا ہے؟
آنکھیں کھلی رکھیں تومعلوم ہوکہ قدس فورس اسرائیل کی نابودی کی جنگ کی قیادت کررہی ہے۔ امریکا دنیا کو اپنی سخت طاقت یعنی اسلحے سے ڈرا کرکام نکلواتا رہا ہے، لیکن دنیا میں یہ مثال پاسداران انقلاب اسلامی اوراسکی قدس فورس اوراسکے تربیت یافتہ افراد نے قائم کی کہ امریکی سامراجیوں کو یرغمالی بناکر انہی کا اسلحہ انہی کے ایجنٹوں پر استعمال کیا۔ جنوبی لبنان سے صہیونی افواج کی پسپائی کی تیکنیک حزب اللہ کو آخرکس نے سکھائی؟ یوم القدس کے بعد کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں۔ خمینی ؒ بت شکن کے فرزند حسن نصراللہ نے کیا نہیں کہا تھا کہ اب نہ نکبہ ہوگا نہ نکسہ یعنی نہ 1948ء کی طرح کوئی آفت و مصیبت صہیونی برپا کرسکیں گے اورنہ ہی جون 1967ء کی طرح دھچکا لگا سکیں گے، کیونکہ اب میدان میں صدام اور آل سعود کی طرح کے کاغذی شیرنہیں بلکہ حقیقی فرزندان اسلام ہیں اوردیکھ لیں کہ اب شام میں یہ مسلط کردہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔
بہشت زہرا(س) کے حرم مطہرکے گنبد پر لہراتا ہوا سرخ علم دنیا کے آزادی پسند انسانوں اورخاص طورپرمستضعفین کویہ بتاتا ہے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، ابا عبداللہ الحسین ؑ کے اس حقیقی فرزندکے فرمان پرمر مٹنے والے لاتعداد شہیدان راہ خدا کی نورانی قبورپرفرزند روح اللہ کا لکھا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں زبانی کلامی دعوے نہیں ہوتے بلکہ عملی میدان میں کارنامے ہوتے ہیں۔ بے شک اگرکسی کو دیومالائی شخصیت اورداستانوں کوحقیقی دنیا میں دیکھنا ہو توروح اللہ خمینی ؒ اور اسکے عاشق فرزندوں کو دیکھ لے، مادی دنیا ان معنوی ہستیوں کو سمجھنے سے عاجزہے۔ یوم القدس کا آئیڈیا دنیا کے سامنے پیش کرنے والے امام خمینی ؒ کا حرم آج بھی امت اسلام ناب محمدی کا وہ مرکز ہے کہ جہاں انقلابی آج بھی تجدید عہد وفا کرتے ہیں، ہرشخص اپنے حصے کا کام سمجھتا ہے اورپھراسے انجام دینے لگتا ہے۔ یوم القدس تواس ملکوتی دماغ و روح کا ادنٰی سا معجزہ ہے، جس کا ایک بہشتی پوری ملت کی حیثیت رکھتا ہو، اسکا سید علی خامنہ ای نہ جانے کیا ہوگا!۔ فی الحال یوم القدس تک ہی بات کو محدود رکھتے ہیں۔